٢٠٠٤پہلا فقہی سیمینار شرعی کونسل آف انڈیا، بریلی شریف

سوال نا مہ
سوال نمبر۱
سفر میں جمع بین الصلوٰ تین:۔
ایمان و تصحیح عقائد کے بعد تمام فرائض میں سب سے اہم نماز ہے ۔ اللہ و رسول جلّ وعلا کے ارشاد ات اس کی اہمیت و عظمت سے مالا مال ہیں ترک نماز پر بے پناہ وعیدیں وارد ہیں اور اس کے ادا کرنیوالوں کے لئے غیر معمولی اجروثواب کا وعدہ فرمایا گیا ہے۔ لیکن اجرو ثواب کاترتب نماز کے ارکان و شرائط کی ادائیگی و پابندی پر منحصرہے۔ نماز کی ادائیگیکےلئے شریعت طاہرہ نے اوقات مقرر فرمائے ہیں۔ قرآن وحدیث کے نصوص اس پر ناطق ہیں ۔ قال اللّٰہ تعالیٰ :- انّ الصلوٰۃ کانت علی المو منین کتابا مو قوتاَ (پ٥ ١٢) بے شک نماز ایمان والوں پر فرض ہے وقت باندھا ہوا۔ احادیث کریمہ میں نماز کے اوقات کی تفصیل موجود ہے۔ اوقات کے تعلق سے فقہا ء اسلام کے اجتہاد ات میں بعض فرق و اختلاف کے باوجو د توقیت صلوٰۃ کے مسائل متفق علیہا ہیں اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ عرفہ اور مزدلفہ کے علاوہ (جہاں بحالت اختیار حجاج کو حج میں صرف عصر عرفہ و مغرب مزدلفہ میں جمع حقیقی جائز ہے) اگر حالت، سفر یا اضطرار کی نہ ہو تو نماز اپنے وقت پر ادا کرنا لازم ہے لیکن اگر حالت سفر کی ہو تو کیا مسافر کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ قصداً اول نمازوں کو ایک وقت میں جمع کر کے پڑھے ؟ مذہب حنفی میں جمع بین الصلوٰتین کی اجازت نہ سفر میں ہے نہ حضر میں۔ جمع تقدیم کی صورت میں نماز ان پر باطل و ضائع ہو گی اور جمع تاخیر کی صورت میں عمداً اوّل نما ز کا قضا کرنے والا ٹھہرے گا اور گنہگار ہو گا ۔
لیکن فی زماننا سفر کی دشواریوں کا حال سب پر عیاں ہے اگرچہ سست رفتار سواریوں کی جگہ برق رفتار سواریوں نے لے لی ہے مگر ان کے چلنے اور رکنے کے اپنے مقررہ اوقات ہیں ،اور کوئی ضروری نہیں کہ ان کے رکنے اور ٹھہرنے کے اوقات ہماری اوقات ِ نماز کے موافق ہوں ۔ اس کا تجربہ ٹرینوں اور جہازوں سے سفر کر نیوالوں کو بخوبی ہے ایسی صورت میں اگر دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کر کے پڑھنے کی شرعی راہ نہ تلاش کی جائے تو مذہب حنفی کی رو سے یا تو آدمی عمداً تارک نماز ہو کر سخت گنہگار ٹھہریےگا یا وقت پر تقدیم نماز کی صورت میں نماز ہی باطل قرار پائے گی جو ایک عظیم دینی ضرر ہے ۔
لہٰذا سفر میں دو نمازوں کو ایک وقت پر جمع کر نے سے متعلق درج ذیل سوالات پیش خد مت ہیں جن پر غورو فکر کر کے شرعی حل نکالنا ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔
۱۔ کیا مذکورہ ضرر دینی سے بچنے کی ضرورت کے پیش نظر جمع بین الصلوٰتین کے تعلق سے امام شافعی علیہ الرحمہ والرضوان کے مذہب پر فتویٰ و عمل کی اجازت ہے ؟
۲۔ مذہب شافعی پر عمل کی صورت میںجمع تقدیم و جمع تاخیر دونوں کی اجازت ہو گی یا صرف ایک کی؟
۳۔ مذہب شافعی پر عمل کی صورت میں کیا ان شرائط کو بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہوگا جو ان کے مذہب میں جمع بین الصلوٰتین کے لئے لازمی ہیں ؟ نیز یہ واضح فرمائیں کہ ایسی صورت میں مدت سفر کا اعتبار کس مذہب کے مطابق ہو گا ؟
اگر مذہب حنفی کے مطابق کیا جائے تو یہ صورت تلفیق تو نہ ہو گی ؟
۴۔ سفر میں بسا اوقات مثل ثانی میں عصر پڑھنے کی ضرورت پیش ہو تی ہے تو کیاایسے مسافر کو شرعاً یہ اجازت ہے کہ امام اعظم علیہ الرحمة والرضوان کے مذہب کے بجائے صاحبین رحمہما اللہ تعالیٰ کے مسلک پر عمل کرے؟
۵۔ اس ضمن میں اس سوال کے جواب کی بھی ضرورت ہے کہ آ ج کل سعودیہ عربیہ کا سلطان یا امور حج میں اس کا نائب وہ ہوتا ہے جس کے معتقد ات اہل سنت و جماعت کے معتقدات سے الگ ہوتے ہیں تو کیا عرفات میں ظہر وعصر کو ملا کر پڑھنا جائز ہو گا ؟
امید ہے کہ تسلی بخش جوابات سے شاد کام فرمائیں گے۔

ناظم: شرعی کونسل آف انڈیا
٨٢/سوداگران بریلی شریف

سوال نمبر۲
نماز میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال:۔
لاؤڈ اسپیکر'' آواز کی ترسیل کا ایک آلہ ہے ، جس کو ایجاد ہو ئے کوئی زیادہ عرصہ نہیں گذرا ہے ، اسے عہد جدید کی پیداوار بھی کہا جا سکتا ہے ۔ متکلم کی آواز کو دور تک پہونچانے کے خواہش مند حضرات اسے رزم و بزم میں بے دریغ استعمال کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔لیکن ۔۔۔۔۔۔یہ آلہ مکبر الصوت اس وقت سے علماء و فقہا کے مابین بحث و نظر کا موضوع بن گیا ، جب عہد جدید کی تہذیب کے دلدادہ حضرات نے اسے حرم مسجد تک پہونچایا ۔ اور صورت حال یہ پیدا ہو گئی کہ بعض مساجد کے امام نے از خود ۔۔۔۔۔۔یا ۔۔۔۔۔۔پھر ارکان مسجد کے جبر و دباؤ سے نماز میں اپنی قرأت و تکبیر ات کو دور نزدیک کے مقتدیوں کو سنانے کا ذریعہ بنالیا ۔ پھر یہ مسئلہ علماء کرام و مفتیان عظام کی خدمت میں پیش ہوا، مگر غور و فکر کے بعد بھی کسی ایک حکم پر اجماع و اتفاق نہ ہو سکا ۔ اور مسئلہ نزاعی ہی رہا ۔ چنانچہ ۔۔۔۔۔۔لاؤڈ اسپیکر سے سنی جانے والی آواز کے تعلق سے ہند و پاک کے علماء کے دو مختلف نقطہائے نظر سامنے آئے ۔
بعض حضرات علماء نے لاؤڈ اسپیکر کی آواز کو عین آواز متکلم قرار دے کر اس پر انتقالات ارکان (رکوع و سجدہ)کر نے والوں کی نماز کو صحیح و درست ٹھہرایا ۔ جبکہ بیشتر حضرات علماء نے لاؤڈاسپیکر سے مسموع آواز کو غیر آواز متکلم قرار دیا ۔ اور اس پر انتقالات ِ ارکان کر نے والوں کی نماز بوجہ تلقن من الخارج فا سد قرار دی۔ یہ مسئلہ اکابر علماء کے پردہ فرمانے کے بعد بھی جزوی طور پر نزاعی رہا۔ اور اب بھی ہے ، اس مسئلہ کی عملی صورت حال یہ ہے کہ بعض شہروں میں مسجدوں کے اندر لاؤڈاسپیکر پر نماز پڑھائی جا تی ہے ، اور نہ پڑھانے کی صورت میں فتنہ و فساد تک کی نوبت آجاتی ہے ، بلکہ بعض ناخواندہ لوگ غیروں کی اقتداء تک کر لیتے ہیں ۔ دوسری جانب آواز کی غیریت اور تکبیر کی سنت کے مردہ ہو نے کے پہلو کے علاوہ لاؤڈ اسپیکر کے استعمال میں کم از کم دوبڑی خرابیاں پیدا ہو تی ہیں ۔ یا اس کا قوی امکان رہتا ہے۔
۱۔ جہاں دو مسجد یں قریب قریب ہو تی ہیں وہاں ایک مسجد کے امام کی آواز دوسری مسجد کے مصلیان یا سامع سن لیتے ہیں اور وہ یہ امتیاز نہیں کر پاتے کہ یہ ہمارے امام کی آواز ہے یا دوسرے امام کی؟ نتیجہ کے طور پر دوسرے امام کی آواز پر انتقالات ارکان کر لئے جاتے ہیں ۔ جو مفسد نماز ہے ۔
۲۔ لاؤڈ اسپیکر مشین کا عین حالت نماز مین بگڑ جانا کوئی نادر بات نہیں ، جس کے نتیجے مین خلفشار و اضطراب کی صورت پیدا ہو جاتی ہے اور نوبت نماز کے فساد تک جا پہنچتی ہے ۔
ان حالات کے تناظر میں ''شرعی کونسل'' نے فیصلہ کیا کہ از سر نو اس مسئلہ پر کھلے ذہن و فکر سے غور و فکر کیا جائے اور دلائل و شواہد کی روشنی میں مسئلہ کے تما م پہلوؤں کا جائزہ لیکر صحیح فقہی نقطئہ نظرسے واضح کیا جائے ۔ اس تعلق سے آپ حضرات کی خدمت مبارکہ میں درج ذیل سوالات پیش ہیں ۔
۱۔ لاؤڈ اسپیکر کی آواز متکلم کی عین آواز ہے ؟ یا اس کی آواز کے مشابہ کوئی نئی آواز ہے،یا صدائے بازگشت ہے؟ اس تعلق سے جدیدسائنس کی تحقیقات کے مطا لعہ سے آپ کس نتیجہ پر پہونچے ہیں ؟ اور بہر صورت اس کی آواز پر نماز میں انتقالات ارکان کر نے والوں کی نماز درست ہو گی یا فاسد؟ مدلل بیان فرمائیں۔
۲۔ اگر نماز فاسد ہو تو کیا موجودہ دور میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال میں اسباب ستہ میں سے کوئی ایک یا چند اسباب متحقق ہو چکے ہیں ؟ اور کیااس تحقق سبب کی بنا پر صحت نماز کا حکم دیا جائے گا ؟
امید کہ ان دونوں سوالوں کے تشفی بخش جواب سے ہمیں ممنون فرمائیں گے ۔

ناظم: شرعی کونسل آف انڈیا
٨٢/سوداگران بریلی شریف

سوال نمبر۳
اجارئہ تراویح:۔
ملک کے طول و عرض میں تراویح میں ختم کلام اللہ شریف کا جو معھود و معلوم اور معتاد و متعارف طریقہ ہے وہ اظہر من الشمس ہے بیشتر مقامات ایسے ہیں جہاں قرآن مجید سننے و سنانے پر اجرت لینا و دینا شائع ہے بلکہ بعض مقامات پر مقدار اجرت بھی معلوم و معین ہوتی ہے اور اس سے کم کی ادائیگی باعث نزاع ہو تی ہے ۔ عام حفاظ کی عادت معروفہ یہ بھی ہے کہ انہیں کچھ نہ ملے تو نہ سنائیں اور عام مسلمین کا بھی یہ شیوہ عمل ہے کہ اگر نہ سنائیں تو کچھ نہ دیں اور شرعیت مطہرہ کا قاعدہ کلیہ ہے المعھود عرفا کا لمشروط لفظا
بہر حال قابل غور امر یہ ہے کہ یہ طاعات و عبادات و حسنات پر اجرت ہے اور اس باب میں اصل یہ ہے کہ یہ اجارہ نا جائز و حرام ہے اس امر پر متقدمین و متا خرین تمام فقہائے کرام کا اتفاق ہے ہاں متاخرین فقہائے عظام نے بنا چاری و مجبوری بنظر حال زمانئہ شعائر دین کی بقا کے لئے چند چیزوں کا استثنا فرمایا اور ان پر اجارہ جائز فرمایا ۔ جیسا کہ'' شرح و قایہ میں ہے: "والأ صل عندنا أنہ لا یجوز الإجارۃ علی الطاعات ولا علی المعاصی لکن لما وقع الفتور فی الا مور الد ینیۃ یفتی بصحتہا لتعلیم القرآن والفقہ تحرزا عن الا ند راس '' از:۔ شرح وقایہ باب الإجارۃ الفاسدۃ ۔
مجمع الانہر میں ہے : ولا یجوز أخذ الا جرۃ عندالمتقد مین علی الطاعات کالاذان و الحج والإمامۃ والتذکیرو التدر یس والغز و و تعلیم القرآن والفقہ و قراء تھما أوالمعاصی کا لغناء والنوح والملا ہی و یفتی الیوم بجواز أخذالا جرۃ علی الامامۃ و تعلیم القرآن والفقہ والا ذان کما فی عامۃ المعتبرات وھذ ا علی مذہب المتأ خرین من مشایخ بلخ استحسنوا ذالک وقالو ا بنی أصحابنا المتقدمون الجواب علی ما شا ہد وامن قلۃ الحفاظ و رغبۃ الناس فیہم وکانت لہم عطیات من بیت المال وافتقاد من المتعلمین فی مجازاۃ الاحسان بالإحسان من غیر شرط مروئۃ یعینو نہم علی معاشہم ومعادہم وکانوا یفتون بوجوب التعلیم خوفا من ذہاب القرآن و تحریضا علی التعلیم حتی تنہضوا لإِقامۃ الواجب فتکثر حفاظ القرآن وأماالیوم فذہب ذالک کلہ وان قطعت العطیات من بیت المال بسبب استیلاء الظلمۃ واشتغل الحفاظ بمعاشہم وقلمایعلمون الحسبۃ ولایتفرغون لہ أیضافان حاجتہم یمنعہم من ذالک فلولم یفتح باب التعلیم بالأجر لذہب القرآن فأفتوابجوازہ لذالک ورأوہ حسنا وقالواالاحکام قد تختلف با ختلاف الزمان ألایری أن النساء کن یخر جن الی الجماعات فی زمان علیہ الصلاۃ والسلام وزمان أبی بکر الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حتیٰ منعہن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وا ستقرالأ مر علیہ وکان ذالک ھوالصواب کما فی التبیین وفی النہایۃ یفتی بجوازالا ستیجا ر علی تعلیم الفقہ أ یضافی زماننا وفی الخانیۃ خلافہ تتبع وفی المجمع یفتی بجواز الا ستیجار علی التعلیم والفقہ والإمامۃ کذافی الذخیرۃ والروضۃ ولا یجوز استیجار المصحف و کتب الفقہ لعدم التعارف کما فی شرح الکنز للعینی ملحضامجمع الأنہر ٢/٤ ٣٨/٣٨٥)
خاتمۃ المحققین علامہ محمد امین ابن عابد ین شامی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ''الأصل أن کل طاعۃ یختص بہا المسلم لایجوزالاستیجار علیہا عندنا قال فی الہدایۃ و بعض مشایخنا رحمہم اللہ تعالیٰ استحسسنواالاستیجار علی تعلیم القرآن لظہور التوانی فی الأمورالدینیۃ ففی الامتناع تضیع حفظ القرآن وعلیہ الفتوی اہ و قد اقتصر علی استثناء تعلیم القرآن أیضا فی متن الکنز ومتن مواہب الرحمن وکثیر من الکتب و زاد فی مختصر الوقایۃو متن الإصلاح تعلیم الفقہ و زادفی متن المجمع الإمامۃ و مثلہ فی متن الملتقی و دررالبحار وزاد بعضہم الأذان والإقامۃ والوعظ وذکرالمصنف معظمہا ولکن الذی فی أکثرا لکتب الا قتصار علی مافی الہدایۃ فہذا مجموع ما أفتی بہ المتأخرون من مشایخنا وھم البلخیون علی خلاف فی بعضہ مخالفین ماذہب إلیہ الإمام وصاحباہ وقداتفقت کلمتہم جمیعافی الشروح والفتاوی علی التعلیل با الضرورۃ وھی خشیۃ ضیاع القرآن کما فی الہدایۃ وقد نقلت لک مافی مشاہیر متون المذہب الموضوعۃ للفتوی فلاحاجۃ إلی نقل مافی الشروح والفتاوی وقداتفقت کلمتہم جمیعا علی التصریح بأصل المذہب من عدم الجواز ثم استثنوابعدہ ما علمتہ فہذا دلیل قاطع و برہان ساطع علی أن المفتی بہ لیس ہو جواز '' الا ستیجار علی کل طاعۃ بل علی ماذکروہ فقط مما فیہ ضرورۃ ظاہرۃ تبیح الخروج من أصل المذہب من طرو المنع(ملحضا شامی ٥/٣٥ مکتبہ نعمانیہ، باب الإجارۃ الفاسدۃ۔
مندرجہ بالا مضامین سے ملتا جلتا مضمون مندرجہ ذیل کتب میں بھی ہے : ۱۔ بدائع الصنائع ٤/٤٤و٤٥باب الاستیجار علی الطاعۃ (٢)تبیین الحقائق٥/١٢٤و١٢٥ باب الاجارۃ الفاسدۃ (٣)شلبی ٥/١٢٤ باب الاجارۃ الفاسدۃ (٤)البحرالرائق ٨/١٩و٢٠-مکتبہ رشیدیہ پاکستان باب الاجارۃ الفاسدۃ۔
سیدنا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ، فرماتے ہیں ''اصل یہ ہے کہ طاعات و عبادات پر اجرت لینا دینا سوائے تعلیم قرآن عظیم و علوم دین و اذان و امامت وغیرہا معدود ے چند اشیاء کہ جن پر اجارہ کرنا متاخرین نے بنا چاری و مجبوری کی بنظر حال زمانہ جائز رکھامطلقا حرام ہے اور تلاوت قرآن عظیم بغرض ایصال ثواب و ذکر شریف میلاد پاک حضور سید عالم صل اللھ علیہ وسلم ضرور منجملہ عبادات و طاعات ہیں تو ان پر بھی اجارہ ضرور حرام و محذورہےَ(فتاویٰ رضویہ ٨/١٥٩ سنی دارالاشاعت
نیز امام احمد رضا قدس سرہ، نے عامة المسلمین کو امر حرام سے بچانے کے لئے اس اجارہ کی صحت و حلت کے دو طریقے ذکر فرما ئے جیسا کہ رقمطراز ہیں: ''پس اگر قرار داد کچھ نہ ہو وہاں لین دین معہود ہوتا ہو تو بعد کو بطور صلہ وحسن سلوک کچھ دیدینا جائز بلکہ حسن ہوتا ہل جزاء الاحسان الا الاحسان واللہ یحب المحسنین، مگر جبکہ اس طریقہ کا وہاں عام رواج ہے ، تو صورت ثانیہ میں داخل ہو کر حرام محض ہے اب اس کے حلال ہونے کے دو طریقے ہیں۔ اول یہ کہ قبل قرأت پڑھنے والے صراحۃ کھہ دیں کہ ہم کچھ نہیں لیں گے پڑھوانے والے صاف انکار کردیں ، کہ تمہیں کچھ نہ دیا جائے گا ، اس شرط کے بعد وہ پڑھیں اور پھر پڑھوانے والے بطور صلہ جو چاہیں دیدیں یہ لینا دینا حلال ہوگا لانتفاء الاجارۃ بوجہیہا ، امااللفظ فظاہرواماالعرف فلانہم رضواعلی نفیہا والصریح یفوق الدلالۃ، فلم یعارضہ العرف المعہود کما نص علیہ الامام فقیہ النفس قاضی خاں رحمہ اللہ تعالیٰ فی الخانیۃ وغیرہ فی غیرہا من السادۃ الربانیۃ ،دوم پڑھوانے والے پڑھنے والوں سے بہ تعیین وقت و اجرت ان سے مطلق کا ر خدمت پر پڑھنے والوں کو اجارے میں لے لیں ۔مثلاً یہ ان سے کہیں ، ہم نے کل صبح سات بجے سے بارہ بجے تک بعوض ایک روپیہ کے اپنے کام کاج کے لئے اجارہ میں لیا، وہ کہیں ہم نے قبول کیا، اب یہ پڑھنے والے اتنے گھنٹوں کے لئے ان کے نوکر ہو گئے ، وہ جو کام چاہیں لیں، اس اجارہ کے بعد وہ ان سے کہیں ، اتنے پارے کلام اللہ شریف کے پڑھ کر ثواب فلاں فلاں کو بخش دو، یا مجلس میلاد پاک پڑھ دو، یہ جائز ہو گا اور لینا دینا حلال لا ن الاجارۃ و قعت علی منافع أبدانہم لا علی الطاعات والعبادات،(فتاوی رضویہ ٨/١٥٩و١٦٠سنی دارالاشاعت)
مذکورمضامین کی ترجمانی فتاوی رضویہ میں مندرجہ ذیل جگہوں پر بھی ہے: (١)فتاویٰ رضویہ ٨/١٨٥سنی دارالاشاعت(٢)فتاویٰ رضویہ٨/١٥٩ سنی دارالاشاعت(٣)فتاویٰ رضویہ٨/١٦٣ سنی دارالاشاعت
فقیہ اعظم ہند حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان فرماتے ہیں ''آج کل اکثر رواج ہو گیا ہے کہ حافظ کو اجرت دے کر تراویح پڑھواتے ہیں یہ ناجائز ہے دینے والا اور لینے والا دونوں گنہگار ہیں اجرت صرف یہی نہیں کہ پیشتر مقرر کر لیں کہ یہ لیں گے یہ دیں گے بلکہ اگر معلوم ہے کہ یہاں کچھ ملتا ہے اگر چہ اس سے کچھ طے نہ ہوا ہو یہ بھی ناجائز ہے کہ ''المعروف کا لمشروط'' ہاں اگر کہہ دے کہ کچھ نہیں دوں گا یا نہیں لوں گا پھر پڑھے اور حافظ کی خدمت کریں تو اس میں حرج نہیں کہ ''الصریح یفوق الدلالۃ'' (بہار شریعت ج ٤ص ٢٥فاروقیہ بکڈپو دہلی(
فقیہ فقید المثال سیدنا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ، و حضور صدر الشریعہ و دیگر فقہائے اعلام رحمہم اللہ تعالیٰ کی تصریحات و تحقیقا ت سے یہ حقیقت آفتاب روز روشن سے زیادہ عیاں وآشکارا ہے کہ طاعات و عبادات و حسنات پر اجرت لینا و دینا علی الاطلاق ناجائز و حرام و باطل محض ہے۔ الاٰخذ والمعطی اٰثمان مگر متاخرین ائمہ دین متین نے حالات زمانہ دیکھ کر اس میں چند چیزیں بضرورت مستثنیٰ فرمائیں امامت ، اذان،تعلیم قرآن مجید، تعلیم فقہ و وعظ کہ اب مسلمانوں میںیہ اعمال بلانکیر معاوضہ کے ساتھ جاری ہیں ان پانچ چیزوں کے سوا باقی طاعات و عبادات و حسنات پر اجرت لینا و دینا حرام و باطل ہے اور انہیں طاعات میں سے نماز تراویح میں تلاوت قرآن عظیم بھی ہے جو عام بلاد مسلمین میں معاوضہ کے ساتھ جاری ہے متاخرین و متقدین میں فقہائے کرا م نے آج تک اس اجارہ کے ناجائز و حرام ہو نے کا فتویٰ دیا اللہ عز وجل کا ارشاد ہے: "ولا تشتروابایاتی ثمنا قلیلا،" (پ١ البقرہ ع٥
نیز فرمایا"أم تسالہم أجرا فہم من مغرم مثقلون"پ٢٩القلم ع ٤ نیز فرمایا "وما تسألہم علیہ من أجر"پ ١٣یوسف ع ٥ حدیث میںوارد ہے "اقر واالقرآن ولا تا کلوابہ( ذخیرۃ العقبی ج ٣/٥١٥کتاب الاجارۃ الفاسدۃ و شامی ج ٥/٣٥ باب الاجارۃ الفاسدۃ)
سیدنا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ، نے بغرض ایصال ثواب اجرت پر تلاوت کلام اللہ شریف پڑھنا اور پڑھوانا دونوں ناجائز فرما یا اور یہ کہ جو حافظ اس کا پیشہ رکھے فاسق معلن ہے اور فاسق معلن کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے کہ اسے امام بنانا گناہ اور جو نماز اس کے پیچھے پڑھی ہو اس کا لوٹانا واجب مگر بایں ہمہ اس اجارہ کی حلت کے دو طریقے بھی ارقام فرمائے کما سبق تحقیقہ، نماز تراویح میں تلاوت قرآن عظیم پر اجارہ ، اجارہ تلاوت کلام اللہ شریف بغرض ایصال ثواب کی نظیر ہے جس سے اس کاحکم أوضح من الامس ہے کہ یہ اجارہ معروفہ بھی باطل و حرام ہے اور اس اجارہ کی حرمت و بطلان پر تمام ائمہ متقدین و متاخرین کا اتفاق بھی ہے نیز ایسے حفاظ اور ان کی اقتدا میں ادا کر دہ نماز کا حکم بھی ظاہر و باہر ہے مگر فقہائے کرام فرماتے ہیں: کم من حکم یختلف باختلاف الزمان ۔ وفی نزع الناس عن عاد ا تہم حرج،نیز اللہ عز وجل کا ارشاد ہے ،وما جعل علیکم فی الدین من حرج،یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر ، حدیث شریف میں فرمایا گیا ''بشروا ولا تنفروا یسروا ولا تعسروا۔''
جزئیات فقہ کے مطالعہ سے یہ حقیقت روز روشن سے بھی آشکار ا ہے کہ بہت سے امور اصل مذہب کے اعتبار سے ناجائز و حرام تھے مگر بعد میں فقہائے کرام نے اختلاف احوال اور تغیرزمان کے پیش نظر اسباب ستہ (ضرورت و حاجت، و دفع حرج و عموم بلوی ، و تعامل و دینی ضروری مصلحت کی تحصیل ، و دفع فساد مظنون بظن غالب ) کو تخفیف احکام کا مدار قرار دیا اس کے کچھ شواہد گذشتہ سطور میں گزرے اسفارفقہ میں دیگر احکام بھی شاہد عدل ہیں امت مسلمہ کے لئے آسانی کی راہ پیدا کرنا اور انہیں ابتلائے آثام و ارتکاب معاصی و ابطال عمل سے بچانا علمائے دین متین و مفتیان اسلام کی اہم ذمہ داری ہے۔
اس لئے درج ذیل سوالات غور طلب ہیں۔
۱۔ نماز تراویح میں تلاوت کلام اللہ شریف پر اجرت لینا و دینا کیا اب بھی ناجائز و حرام ہی ہے ؟ یا اختلاف احوال کے سبب اب ان طاعات و عبادات خمسہ کے بطور جائز و حلال ہے جنہیں فقہائے متاخرین نے بضرورت بنظر حال زمانہ جائز فرمایا ؟
۲۔ امام احمد رضا قدس سرہ، نے بغرض ایصال ثواب تلاوت قرآن پاک کی اجرت کے حلال ہو نے کا جو طریقہ تحریر فرمایا اس طور پر یہ اجارہ صحیح ہوگا؟ اور اجرت لینا ودینا حلال و طیب ہوگا؟ اور یہ اجارہ طاعات و عبادات پر نہیں بلکہ حافظوں کے منافع ابدان پر ہو گا ؟ اس اجارہ کے جواز کی اور بھی کوئی صورت ہے ؟
۳۔ بعض مساجد میں حفاظ قرآن کی صحیح خوانی کے لئے سامع قرآن بھی رکھا جاتا ہے اور اس خدمت پر سامع کو اجرت معین یا غیر معین دی جاتی ہے کیا یہ ناجائز و حرام ہے یا جائز و حلال ہے ؟
۴۔ بعض مساجد میں ائمہ مساجد جن کی اجرت امامت مقرر و طے شدہ ہو تی ہے وہی تراویح میں ختم قرآن شریف بھی کر تے ہیں اور انہیں اجرت امامت پر مزید اجرت ( معین یا غیر معین ) دی جا تی ہے کیا یہ ناجائز و حرام ہے ؟ یا اس کے جواز کی کوئی راہ ہے ؟ جبکہ ائمہ مساجد اگر تراویح نہ بھی سنائیں پھر بھی انہیں اجرت امامت سے کچھ زائد ہی دیا جاتا ہے مگر عموماً جتنا حافظ قرآن کو دیا جا تا ہے اس سے کچھ کم ہی ۔
۵۔ بعض مساجد میں ائمہ مساجد تراویح میں ختم کلام اللہ شریف کے بجائے حفاظ قرآن کی صحیح خوانی کی سماعت پر مامور ہو تے ہیں اور اس مقررہ عمل پر اجرت امامت سے زائد اجرت ( معین یا غیر معین) پیش کی جاتی ہے اگر ائمہ مساجد اس خدمت پر مامور نہ ہوں بلکہ کوئی دوسرا ، تو یہ مقدار اجرت دوسرا ہی پائے نہ کہ ائمہ مساجد ، کیا یہ اجرت سماعت کلام اللہ شریف ائمہ مساجد کے لئے بھی ناجائز و حرام ہے یا حلال و طیب؟
۶۔ کیا مسئلہ دائرہ میں تعامل کی تاثیر موجب تخفیف ہے؟ درج بالا امور میں غورو فکر اور امعان نظر کے بعد اصابت رائے سے حل کی ایسی راہ متعین کی جائے جس پر عامة المسلمین کے لئے عمل میں آسانی ہو اور ارتکاب حرام و ابتلائے آثام وابطال عمل وغیرہ لازم نہ ہو لعل اللّٰہ یحدث بعد ذلک أمرا وما ذلک علی اللّٰہ بعزیز و ہو علی کل شیئ قدیر ْ
ناظم: شرعی کونسل آف انڈیا
٨٢/سوداگران بریلی شریف

جوابات/فیصلے
پہلا فقہی سیمینار ،شرعی کونسل آف انڈیا،بریلی شریف مورخہ ١٦/رجب المرجب ١٤٢٥ھ مطابق ٢/ستمبر ٢٠٠٤ء
جواب نمبر۱
نماز میں لاؤڈاسپیکر کا استعمال:۔
،نماز میں لاؤڈاسپیکر کا استعمال
۱۔ لاؤڈاسپیکر کی آواز متکلم کی عین آواز نہیں ہے ، اس لئے محض لاؤڈا سپیکر سے مسموع آواز پر اقتداء ہم احناف کے نزدیک صحیح نہیں، بالفرض یہ آواز ماہیت کے اعتبار سے متکلم کی آواز بھی ہو تو بھی حکماًیہ اصل آواز نہیں لہٰذا اب بھی محض اس آواز پر اقتداء درست نہیں ہو گی ۔
۲۔ جہاں کہیں نماز میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر لوگ جبر کریں وہاں مکبّرین کا بھی انتظام کیا جائے اور مقتدیوں کو مسئلہ کی صورت سے آگاہ کرتے ہو ئے ہدایت کی جائے کہ وہ لاؤڈاسپیکر کی آواز پر اقتداء نہ کرکے مکبّرین کی آواز پر اقتداء کریں ۔ ۳۔ اسی طرح مکبّرین کو بھی ہدایت کی جائے کہ وہ بھی لاؤد اسپیکر کی آواز پر اقتداء نہ کریں۔ ۴۔ کہیں مکبّر مقرر کر نے کی بھی صورت نہ بنے تو امام مسئلہ بتادے وہ اس بنا پر امامت سے مستعفی نہ ہو۔
مورخہ ١٧/رجب المرجب ١٤٢٥ھ مطابق ٣/ستمبر ٢٠٠٤ء

جواب نمبر۲
اجارہئ تراویح
۱۔ اصل مذہب کے مطابق تراویح میں تلاوت قرآن پر اجرت لینا دینا ناجائز و حرام ہے ۔خواہ اجرت معلوم ہویا مجہول ، ہاں یہ صورت اپنائی جائے کہ تراویح پڑھوانے والے، پڑھنے والے حفاظ کو معین وقت اور معین اجرت پر اجیر رکھ لیں ، مثلاً یہ کہیں کہ سات بجے شام سے ١١/بجے رات تک اتنے دنوں کے لئے پانچ ہزار روپئے پر آپ کو اجارہ میں لیااور حافظ کہے کہ میں نے قبول کیا اور حافظ سے تراویح پڑھواکر اسے مقررہ اجرت دی جائے ۔ اس کے بعد کچھ لوگ اپنے طور پر نذرانہ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں اس میں حرج نہیں بلکہ ثواب ہے ۔
۲۔ مسجد کے معین امام کو بھی فرض عشاء کے بعد مثلاً ٩/بجے سے ١١/بجے رات تک بطور اجیر مقرر کیا جائے پھر ان سے تراویح پڑھوائی جائے تو جائز ہے اس طرح وقت خاص کی جواجرت طے ہو گی معین امام کے لئے لینا جائز ہوگا۔
۳۔ مذکورہ بالا حکم حافظ سامع (جولقمہ دینے کے لئے مقرر کئے جاتے ہیں ان) کے لئے بھی ہے۔
مورخہ ١٧/رجب المرجب ١٤٢٥ھ مطابق ٣/ستمبر ٢٠٠٤ء
جواب نمبر۳
سفر میں جمع بین الصلاتین:۔
فیصلہ و تجویز ،سفر میں جمع بین الصلاتین
۱۔ فضاء میں اڑتے جہاز پر نماز پڑھنے کا یہی حکم ہے جو کشتی پر نماز پڑھنے کا ہے یعنی قبلہ رو ہو کر نماز پڑھے،رکوع و سجدہ کے ساتھ بیٹھ کر بھی پڑھنے کی اجازت ہے مگر افضل یہ ہے کہ کھڑے ہو کر پڑھے اوراعادہ واجب نہیں۔
۲۔ ٹھہرے ہوئے جہاز پر نماز پڑھنے کا وہی حکم ہے جو تخت پر نماز پڑھنے کاہے۔
۳۔ باقی یہ صورتیں زیر غور ہیں کہ موجودہ حالات میں ٹرینوں کے سفر میں مذہب شافعی کے مطابق اسٹیشن پر یارکی ہوئی ٹرین پر دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھنا جائز ہے یا نہیں۔
۴۔ اسی طرح چلتی ٹرین سے اترنے میں جبکہ ضیاع جان و مال کا خطرہ ہوتو ٹرین میں پڑھی ہوئی نماز کا اعادہ بمعنی قضاہے یا بمعنی وجوب احتیاطی ۔
مورخہ١٧/رجب المرجب ١٤٢٥ھ مطابق ٣/ستمبر ٢٠٠٤ء

شرعی کونسل آف انڈیا،بریلی شریف کا ایک اہم فیصلہ
-:طلاق ثلاثہ
ہندوستان کے اسی فیصد سنی حنفی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ''شرعی کونسل آف انڈیابریلی شریف'' کا یہ فقہی اجلا س اس طے شدہ امر پر اتفاق کرتا ہے کہ ایک نشست میں ''تین طلاق "تین ہی واقع ہو نگی ۔حدیث صحیح مرفوع سے یہ بہی ثابت ہے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ ئ خلافت میں اس پر صحابئہ کرام کا اجماع بھی منعقد ہو چکا ہے اور اس وقت سے لے کر آج تک تمام امت اجابت کا اسی پر اجماع و عمل ہے۔ '' مسلم پرسنل لاء بورڈ'' یا اور کسی تنظیم کو یہ حق حاصل ہر گز نہیں کہ وہ اس اجماعی مسئلہ میں کوئی تبدیلی کرے اور نہ ہی وہ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم یا نمائندہ بورڈ ہے۔
البتہ عوام کویہ تنبیہ کی جاتی ہے کہ طلاق دینے میں عجلت سے کام نہ لیں اور بوقت ضرورت ایک طہر میں ایک سے زیادہ طلاق ہر گز نہ دیں۔
مورخہ١٧/رجب المرجب ١٤٢٥ھ مطابق ٣/ستمبر ٢٠٠٤ء
|  HOME  |