تیسرا فقہی سیمینار ،شرعی کونسل آف انڈیا،بریلی شریف ٢٠٠٦

سوال نا مہ
سوال نمبر۱
میڈیکل انشورنس:۔
انسانی زندگی میں صحت و مرض کا عارض ولاحق ہونا ایک حقیقت ثابتہ ہے۔ صحت اﷲ عزوجل کی ایک بڑی نعمت ہے۔ اس کے بغیر دینی و دنیوی کسی طرح کے کام کو صحیح ڈھنگ سے انجام نہیں دیا جا سکتا ۔ صحت کا تحفظ خود شرع کو مطلوب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مضر صحت چیزوں کی شریعت نے تاکید فر مائی ہے۔
لیکن آج صحت و مرض کا تجزیہ کیا جائے اور صحت مند و مریض کے اعدادو شمار کو جمع کیا جائے تو اکثریت ایسے افراد کی ملے گی جو کسی نہ کسی مرض میں ضرور مبتلا ہیں۔ خواہ اس کی وجہ فضائی آلودگی ہو یا غذائی اجناس میں کیمیکل کھاد وغیرہ کی آمیزش یا دیگر طبی وجوہات، اور ایسے ایسے خطرناک امراض پیداہو رہے ہیں۔ کہ اگر ان کے علاج کی طرف فوری توجہ نہ مبذول کی گئی ، اور میڈیکل سائنس یا طبی خدمات حاصل نہ کی گئیں، تو وہ امراض مہلک بھی بن جاتے ہیں، یا پھر وہ بے چارہ مریض زندگی بھر کےلئے مفلوج و بے کار اور گھر والوں پر مسلسل بوجھ بن کر رہ جاتا ہے۔
سماج میں متمول طبقہ تو کم ہے زیادہ تر غریب یا متوسط حیثیت کے لوگ ہیں جو جدید طریقئہ علاج کے گراں ہونے کی وجہ سے علاج نہیں کراپاتے پھر یہ کہ طبّی اخلاقیات کی گراوٹ اور طبی خدمات کے عملاً تجارت بن جانے کی وجہ سے علاج کافی مہنگا ہو چکا ہے۔
میڈیکل انشورنس در حقیقت اس صورت حال کی پیدا وار ہے۔میڈیکل انشورنس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ آدمی لاحق ہونے والے ممکنہ مرض کے گراں علاج کی خاطر اپنے اختیار سے انشورنس کراتا ہے جوگورمنٹی یا نجی کمپنی والے سال میں ایک متعینہ رقم جمع کراتے ہیں۔ اس کی بنیاد پر اگر سال بھر کے اندر بیمہ دار کو کوئی بڑا مرض لاحق ہوتا ہے، تو اس کے علاج کے لئے بڑی رقم کمپنی دیتی ہے۔
واضح رہے کہ کمپنی زیادہ سے زیادہ کتنی رقم دے گی ، یہ صحت بیمہ پالیسی کے وقت طے ہوجاتا ہے ۔ اگر بیمہ دار سال بھر کے اندر بیمار نہ ہواتو اس کی جمع کی ہوئی رقم واپس نہیں ملتی ہے۔ بلفظ دیگر وہ رقم لیپس ہوجاتی ہے۔ پھر جب وہ آئندہ سال کے لئے رقم جمع کرے گا تو متعلقہ سال میں مرض لاحق ہونے پر اسے بیمہ کا فائدہ ملے گا۔علی ہذ القیاس ۔یہ انشورنس انفرادی و شخصی بھی ہوتا ہے اور خاندانی یا ادارہ کے لئے بھی بعض حکومتوں نے اپنے ملک کے شہریوں کے لئے انشورنس کولازم قرار دیا ہے یوں ہی ان غیر ملکیوں پر بھی جو ان ممالک کا سفر کرتے ہیں۔ جو لوگ میڈیکل انشورنس سے واقف ہیںان کا کہنا ہے کہ اس انشورنس سے بیمہ داروں کا خاطر خواہ فائدہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیکل انشورنس کمپنیاں گھاٹے میں چل رہی ہیں۔
اس تعلق سے آپ کی خدمت میںچند ابھرتے ہوئے سوالات حاضر ہیں۔
١)میڈیکل انشورنس ، کرانے کا شرعی حکم کیا ہے ؟ کیا مرضہونے کی صورت میں مریض اس رقم سے استفادہ کر سکتا ہے؟
٢) کیا گورمنٹی اور نجی کمپنیوں میں انشورنس کرانے کے حکم میں فرق ہوگا؟
٣) جن حکومتوںنے اپنے شہریوں یا غیر ملکی مسافروں پر صحت بیمہ لازم قرار دیا ہے وہاں اس انشورنس کا کیا حکم ہوگا؟ اور مرض لاحق ہونے کی صورت میں انشورنس رقم سے فائدہ اٹھانا درست ہوگا؟
٤) صحت بیمہ کے عدم جواز کی صورت میں کیا اس کی جائز متبادل صورت بھی آپ کے ذہن میں ہے جس سے غریب اور متوسط مریضوں کو فائدہ پہونچایا جا سکے؟
امید کہ تسلی بخش جوابات سے شاد کام فرمائیں گے۔

ناظم: شرعی کونسل آف انڈیا
٨٢/سوداگران بریلی شریف

سوال نمبر۲
مساجد کی آمدنی کے مصارف:-
مذہب اسلام میں دیگر شعائر کی طرح مساجد کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے اس لئے کہ وہ اﷲ عز وجل کے لئے خاص ہیں قرآن عظیم کا ارشاد ہے : ''وأن المساجد ﷲ" نیز وارد ہے ''إنما یعمر مساجد اﷲ من اٰمن باﷲ والیوم الآخر و أقام الصلاۃ واٰتی الزکاۃ ولم یخش إلا اﷲ'' یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ صرف پاک و ہند ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام میں مساجد کا ایک عظیم الشان سلسلہ قائم ہے جب ہم ان مساجد کی طرف نظر کرتے ہیں تو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ان میں بعض مسجدیں ایسی ہیں جن کی آمدنی اتنی وافر اور کثیر ہے کہ مسجد کے ضروریات اور اس کے مصالح و مصارف سے بہت زائد ہوتی ہے جبکہ کچھ ایسی بھی مسجد یں ہیں جن کی آمدنی اس قدرقلیل ہے کہ مسجد کے ضروریات اور اس کے مصالح اس آمدنی سے پورے نہیں ہوتے ۔
پھر ان مساجد کی آمدنی بھی دو طرح پر ہوتی ہے ایک وہ جووقف نہیں جیسا کہ روپیہ و پیسہ وغیرہ جو چندہ وغیرہ کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے کہ یہ وقف نہیں کہ وقف کے لئے ضروری ہے کہ اصل حبس کر کے اس کے منافع اس کا م میں صرف کئے جائیں جس کے لئے وقف ہونہ یہ کہ خود اصل ہی کو خرچ کردیا جائے۔ دوسرے اوقاف کی آمدنی ہوتی ہے مثلاً کسی نے اپنی زمین یا مکان یا دوکان وغیرہ مسجد پر وقف کردی۔ وقف کے مال میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وقف کرنے والے یہ شرط بھی ذکر کردیتے ہیں کہ اس مال وقف کی آمدنی فلاں ضروریات و مصالح پر صرف کی جائے اور کبھی شرط ذکر نہیں کرتے اور کسی خاص مصرف کی تعیین نہیں کرتے اور بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ اوقاف کافی پرانے ہوتے ہیں ان کے مصارف و شرائط کا پتہ نہیں چلتا۔
جن مساجد کی آمدنی ان کے ضروریات و مصالح سے زائد ہوتی ہے ان میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس آمدنی کے مالک ذمہ دار ان مسجد اس میں بے جا تصرف اور ناحق دست اندازی کرتے ہیں اس سے اپنی ضرورتوں کی تکمیل کرتے ہیں اپنی تجارتوں کو فروغ دیتے ہیں اور کچھ تو اپنا پیدائشی حق سمجھ کر بالکل ہڑپ کرجاتے ہیں جبکہ فقہائے کرام فرماتے ہیں اوقاف میں شرط واقف نص شارع کی طرح واجب الاتباع اور لازم العمل ہوتی ہے وقف جس غرض کے لئے ہے اس کی آمدنی اگرچہ اس کے مصارف سے فاضل ہو دوسری غرض میں صرف کرنی حرام ہے کہ حقوق مسجد پر تعدی ہے سیدنا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ، فرماتے ہیں :''وقف جس غرض کے لئے ہے اس کی آمدنی اگرچہ اس کے صرف سے فاضل ہو دوسری غرض میں صرف کرنی حرام ہے وقف مسجد کی آمدنی مدرسہ میں صرف ہونی درکنار دوسری مسجد میں بھی صرف نہیں ہوسکتی نہ ایک مدرسہ کی آمدنی مسجد یا دوسرے مدرسہ میں [ فتاویٰ رضویہ مصارف وقف ٦/٣٦٨ ، رضا اکیڈمی ممبئ
فقیہ اعظم حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
یہ چندے جس خاص غرض کے لئے کئے گئے ہیں اس کے غیر میں صرف نہیں کئے جاسکتے اگر وہ غرض پوری ہو چکی ہو تو جس نے دیئے ہیں اس کو واپس کئے جائیں یا اس کی اجازت سے دوسرے کام میں خرچ کریں بغیر اجازت خرچ کرنا ناجائز ہے۔ [ فتاویٰ امجدیہ ٣/٣٩ دائرہ المعارف الامجدیہ گھوسی
اسی کے ساتھ ایک دوسرے مقام پر حضرت فقیہ اعظم صدر الشریعہ علیہ الرحمہ فتاویٰ امجدیہ میں مسجد اور اس کے اسباب کے متعلق فرماتے ہیں
امام اعظم و امام ابو یوسف رحمہما اﷲ تعالیٰ کا یہ مذہب ہے کہ جب لوگوں نے مسجدیں بنالیں تو اب وہ تا قیام قیامت مساجد ہو گئیں اس کے اسباب دوسری مسجد میں نقل کرنا کسی طرح سے درست نہیں ہوگا" لایجوز نقلہ و نقل مالہ الی مسجد اٰخر سواء کا نوا یصلون فیہ اولا یصلون" و علیہ الفتوی کذافی الحاوی القدسی''درمختار میں ہے ''ولوخرب ماحولہ واستغنی عنہ یبقی مسجدا عند الامام والثانی أبداً إلی قیام الساعۃ وعلیہ الفتوی'' [فتاویٰ امجدیہ ٣/١٤٩ ، دائرۃ المعارف الامجدیہ گھوسی
اس کے بعد آپ فرماتے ہیں :یہ حکم اس زمانہ کے لئے تھا جب کہ مساجد کی اشیاء لینے اور ان میں تصرف کرنے کو لوگ برا جانتے تھے اور اب یہ زمانہ فساد کا زمانہ ہے کہ لوگ حرام و حلال میں امتیاز نہیں رکھتے مسجد کی چیزوں میں بھی بطور تغلب تصرف کرنے سے باز نہیں رہتے اس زمانہ میں بہت ممکن ہے کہ جب ان مساجد کا کوئی نگراں نہیں تو ان کے عمارتی سامان لوگ اپنے تصرف میں لائیں گے اور مسجدوں کو نیست و نابود کرڈالیں گے۔ اسی طرح یہ بھی خطرہ اور اندیشہ ہے کہ کفار و مشرکین موقع پاکر اس کا سارا سامان رفتہ رفتہ اٹھالے جائیں گے۔ پس ایسی صورت میں امام ابو یوسف سے جو دوسری روایت ہے اس پر عمل کرکے اس کا عمارتی سامان منتقل کر کے دوسری مسجد میں لگادیا جائے اور اس زمین کوچبوترہ کی شکل میں باقی رکھیں جس سے معلوم ہو سکے کہ یہ مسجد ہے اور مسلمان اس کا احترام کریں درمختار میں ہے: ''وعن الثانی ینتقل الی مسجد اٰخر باذن القاضی'' رد المحتار میں فرمایا :فی الاسعاف لو خرب المسجد وما حولہ وتفرق الناس عنہ لایعود إلی ملک الواقف عند أبی یوسف فیباع نقضہ باذن القاضی ویصرف ثمنہ إلی بعض المساجد انتہی مختصراً ۔ پھرفرمایا: والذی ینبغی متابعۃ المشائخ المذکورین فی جواز النقل بلا فرق بین مسجد أوحوض کما أفتی بہ الامام أبوشجاع والامام الحلوانی وکفی بہما قدوۃ ولا سیمافی زماننا فان المسجد أوغیرہ من رباط أوحوض إذا لم ینتقل یأخذ انقاضہ اللصوص والمتغلبون کما ہو مشاہد وکذلک أوقافہ یاکلہا النظار أوغیرہم ویلزم من عدم النقل خراب المسجد الآخر المحتاج إلی النقل إلیہ وقد وقعت حادثۃ سئلت عنہا فی امیر أراد أن ینتقل بعض احجار مسجد خراب فی سفح قاسیون بدمشق لیبلظ بہا صحن الجامع الاموی فافتیت بعد م الجواز متابعۃ للشرنبلالی ثم بلغنی أن بعض المتغلبین أخذ تلک الاحجار لنفسہ فندمت علی ما افتیت بہ ثم رأیت الآن فی الذخیرۃ قال وفی فتاویٰ النسفی سئل شیخ الاسلام عن أہل قریۃ رحلوا وتداعی مسجدہا إلی الخراب و بعض المتغلبۃ یستولون علی خشبہ وینقلونہ إلی دورہم ہل لواحد لاہل المحلۃ أن یبیع الخشب بأمرالقاضی ویمسک الثمن لیصرفہ إلی بعض المساجد أوإلی ہٰذا المسجد قال نعم و حکی أنہ وقع مثلہ فی زمن سیدنا الامام الاجل فی رباط فی بعض الطرق خرب ولاینتفع المارۃ بہ ولہ أوقاف عامرۃ فسئل ہل یجوز نقلہا إلی رباط اٰخر ینتفع الناس بہ قال نعم لان الواقف غرضہ انتفاع المارۃ ویحصل ذلک بالثانی۔ واﷲ تعالیٰ اعلم۔ [فتاویٰ امجدیہ ٣/١٤٩-١٥٠، دائر المعارف الامجدیہ گھوسی
ہمارے فقہائے کرام نے اپنے زمانہ کے فسادات کے اعتبار سے یہ حکم فرمایا اور اصل مذہب سے عدول فرماکر سیدنا امام ابویوسف رحمۃ اﷲ تعالیٰ کی دوسری روایت پر افتاء فرمایا اور مسجد کے اسباب کو دوسری مسجد کی طرف منتقل کرنے کی اجازت دی آج جب کہ حالات کافی بدل چکے ہیں، زمانہ میں فسادات رونما ہو چکے ہیں، لوگوں میں خدانا ترسی اور احکام شرع سے بے پر واہی عام ہو چکی ہے اور مسجد کے مصالح سے زائد آمدنی کے ساتھ ناحق دست اندازی ہو رہی ہے اور مسجد کے حقوق کے ساتھ تعدی جاری ہے حقوق مسجد کے صرف ضیاع کا اندیشہ ہی نہیں بلکہ ضیاع واقع اور رونما ہے تو اس قضیہ کا شرعی حل خاص توجہ کا طالب ہے اس مسئلہ پر غور و خوض کے لئے درج ذیل سوالات ارسال خدمت ہیں۔
١)کیا فسادات زمانہ کے پیش نظر مسجد کے مصالح سے زائد آمدنی کا کسی ایسی مسجد میں استعمال جائز ہے جس کی آمدنی اس کے مصارف کے لئے ناکافی ہے یا اب بھی ناجائز ہی ہے ؟
٢)مساجد کی آمدنی مال وقف اور غیر وقف دونوں پر مشتمل ہوتی ہے اور کبھی خاص مقصد کے لئے ہوا کرتی ہے اور کبھی متولیوں کی صواب دیدپر موقوف ہوا کرتی ہے تو کیا استعمال کے جائزو ناجائز ہونے میں سب کا یکساں حکم ہے یا احکام میں فرق ہے؟
٣)ہمارے فقہائے کرام نے جن وجوہ کی بنا پر امام اعظم و امام ابو محمد رحمہما اﷲ تعالیٰ کے مذہب سے عدول فرماکر امام ابو یوسف رحمۃ اﷲ تعالیٰ کی روایت پر افتا فرمایا کیا وہ وجوہ یہاں متحقق ہیں یا ان کے علاوہ اسباب ستہ میں سے کوئی اور سبب متحقق ہے جو تخفیف حکم کا مقتضی ہے ؟
٤)اس دور میں عموماً متولیان و منتظمین جس مسجد کے انتظام سے متعلق ہوتے ہیں اس مسجد کے علاوہ دوسری مسجد پر فاضل آمدنی دینے پر راضی نہیں ہوتے تاوقتیکہ دوسری مسجد بھی انہیں کے انتظام میں نہ دیدی جائے تو ایسی صورت میں کونسی راہ اختیار کرنا شرعاً جائز ہویا واجب ہو؟
امید کہ اپنے قیمتی اوقات کا کچھ حصہ نکال کر اس قضیہ کا شرعی حل پیش فرمائیں جس سے مسجد کے حقوق کے ساتھ ناحق دست اندازی نہ ہو اور ان مساجد کے مصالح کی بھی تکمیل ہو جن کی آمدنی ان کے مصالح کے لئے ناکافی ہے ۔

ناظم: شرعی کونسل آف انڈیا
٨٢/سوداگران بریلی شریف

سوال نمبر۳
بابت بیع قبل القبض-:
آج دنیا میں مغربی طرز معشیت کے حاوی ہونے کی وجہ سے معاشی و تجارتی میدان میں بھی اسلام کے ماننے والوں کے لئے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ لین دین کے نت نئے زاویئے سامنے آرہے ہیں۔ اور تجارت میں غیروں کے ساتھ اختلاط نے شرعی اعتبار سے مسلمانوں کے لئے الجھنیں پیدا کردی ہیں۔
سر دست ''بیع قبل القبض '' کا مسئلہ توجہ اور حل کا طالب ہے۔ بڑے کا روباری بلکہ کچھ متوسط حیثیت کے تاجر بھی مبیع پر قبضہ کئے بغیر دوسرے کے ہاتھوں فروخت کردیتے ہیں۔ بڑے تاجروں میں اس قسم کی تجارت کا رواج بڑھتا جارہا ہے۔ کیوں کہ اس صورت بیع و شراء میں ان کے لئے زیادہ سہولت ہے، مگر شرعی نقطئہ نگاہ سے اس میں پیچیدگی یہ پیدا ہو رہی ہے کہ بیع قبل القبض کے تعلق سے جمہور فقہا کا مسلک یہ ہے کہ یہ ناجائز ہے۔ اور حدیث پاک میں اس سے متعلق نہی وارد ہے۔
اس لئے چند بنیادی سوالات آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔
١) قبضہ کی حقیقت کیا ہے؟ کیا شریعت نے اس کی کوئی خاص ہیئت ایسی بیان کی ہے کہ وہی قبضہ کہلائے؟ یااسے لوگوں کے عرف و رواج پر چھوڑ دیا ہے؟
٢) اشیائے منقولہ اور غیر منقولہ میں قبضہ کی حقیقت شرعاً الگ الگ ہے ؟ یا ایک ؟
٣) بیع قبل القبض کا حکم کیا ہے؟جائز ہے یا ناجائز ؟ اگر جائز نہیں ہے تو یہ عدم جواز بیع کی کس قسم میں داخل ہے ؟ بیع باطل ہوگی یا فاسدیا کچھ اور ؟
٤) اگر یہ بیع ناجائز ہو تو کیا آج کل کے رواج و عرف کی بنا پر اس کے جواز کا حکم دیا جا سکتا ہے؟ یا جواز بیع کاکوئی حیلہ یہاں ممکن ہے؟
٥) بین الاقوامی تجارت میں جو صورتیں اختیار کی جاتی ہیں شرعاً ان کی حیثیت کیا ہے؟ اور وہ جائز ہیں یا نہیں؟ امید ہے کہ تشفی بخش جواب سے نوازیں گے ۔ والسلام
ناظم: شرعی کونسل آف انڈیا
٨٢/سوداگران بریلی شریف

تیسرے فقہی سیمینار کی مجلس دوم کا فیصلہ مورخہ١١/جمادی الآخرہ ١٤٢٧ھ بروز شنبہ، /مطابق ٨/جولائی ٢٠٠٦ء
شرعی کونسل آف انڈیا'' کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے تیسرے فقہی سیمینار کی دوسری نشست میں دربارئہ ''میڈیکل انشورنس ''درج ذیل فیصلے باتفاق آراء مندوبین طے پائے۔
١)یہ انشورنس کسی عقد شرعی کے تحت نہیں آتا بلکہ یہ قمارہے اس کا حکم مثل عقود فاسدہ کے ہے ،لہٰذا عقود فاسدہ غیر مومن غیر ذمی غیرمستامن سے اسی صورت میں جائز ہیں جب کہ نفع مسلم مظنون بظن غالب ہو، اور یہ قید مابعد کے تمام فیصلوں میں ٤/٥/نمبر کے علاو ہ ملحوظ ہے۔
٢) جواز کی مذکورہ بالاصورت صرف قابل اعتماد کمپنی کے ساتھ ہی خاص ہے خواہ حکومت کی ہو یانجی۔
٣) جن حکومتوں نے اپنے شہریوں پر میڈیکل انشورنس لازم قرار دیدیا ہے بوجہ جبران کے لئے میڈیکل انشورنس جائز ہے۔
٤) جن مسلم حکومتوں نے اپنے شہریوں پر میڈیکل انشورنس لازم قرار دیدیا ہے تو وہاں کے لوگ میڈیکل انشورنس کراسکتے ہیں، البتہ وقت علاج جمع شدہ رقوم سے زیادہ نہ لیں۔
٥)جن مسلم حکومتوں نے بیرونی ممالک کے مسلم شہریوں پر بھی اپنے ملک میں داخلے کے لئے انشورنس لازم و ضروری قرار دیدیا ہے۔ ایسی صورت میں اگر حاجت شرعیہ کا تحقق ہے تو جائز و مباح ہے البتہ وقت علاج جمع شدہ رقوم سے زائد نہ لیں۔
٦)صحت بیمہ کے عدم جواز کی صورت میں ایک متبادل انتظام یہ ہے کہ امراء سے گزارش کی جائے کہ وہ رفاہی اسپتال یا رفاہی فنڈ قائم کریں اور وہ افراد جو اپنے مرض کا گراں علاج نہیں کراسکتے ان کا علاج رفاہی اسپتال وغیرہ سے کرایا جائے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ میڈیکل انشورنس کرانے والا خود بینکوں میںسال بسال اتنی رقم فکس کرتا جائے جتنی انشورنس کمپنیوں کو سال بسال دیتا، اورپھر مرض کے علاج یا دیگر حاجات میں وہ صرف کرے ۔ فقط
تیسرے فقہی سیمینار کی مجلس دوم کا فیصلہ
بمقام: مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا مورخہ١١/جمادی الآخرہ ١٤٢٧ھ بروز شنبہ، /مطابق ٨/جولائی ٢٠٠٦ء
شرعی کونسل کے دوسرے سیمینار میں رمی جمار سے متعلق مندرجہ ذیل فیصلہ زیر غور کر رکھا گیا تھا، اس تیسرے فقہی سیمینار کی نشست دوم میں یہ فیصلہ باتفاق مندوبین طے پایا۔
''گیارہویں و بارہویں کی رمی کا وقت بعد زوال سے غروب تک مسنون اور غروب سے طلوع فجر تک مکروہ ہے۔ اگر مسنون وقت میںجان جانے یا زخمی ہونے کا اندیشہ صحیح ہو تو بعد غروب رمی کرنے میں کراہت نہیں۔ قبل زوال اسل مذہب کی رو سے رمی نہیں ہوسکتی مگرخاص حالت میں خاص لوگوں کو کسی خاص مجبوری کے پیش نظر ضعیف روایت پر عمل کرنے کی اجازت ہے۔ خاص لوگوں سے مراد جن کو مجبوری در پیش ہے۔ کہ مکہ میں اپنے قیام گاہ تک پہنچنے سے معذور ہوں۔فقط
تیسرے فقہی سیمینار کی مجلس چہارم کا فیصلہ
بمقام: مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا مورخہ١٢/جمادی الآخرہ ١٤٢٧ھ بروز یکشنبہ /مطابق ٩/جولائی ٢٠٠٦ء
جن مساجد کی آمدنی مسجد کے مصالح سے فاضل ہے اور اس کے ضیاع کا اندیشہ ہے تو اس کے تحفظ کی اس صورت پر فیصلہ ہوا جسے حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے اپنے الگ فتویٰ میں ارشاد فرمایا کہ ''مقتضائے احتیاط یہ ہے کہ ایسی صورت میں دوسرے امر خیر کے ادارہ کو فاضل آمدنی مسجد بطور قرض دے ایک سے وصول ہو تو پھر اور جس ادارہ کو ضرورت ہو اسے قرض دے جسے بھی قرض دے اس سے وصول کرے ایسا قرض نہ دے کہ قرض مرجائے، پھر جب اس مسجد کو جس کی یہ آمدنی ہے ضرورت ہو اس پر صرف کرے۔
نیزفتاویٰ ہندیہ وغیرہ کے جزئیات سے اسی کی تائید ہوتی ہے۔اما المال الموقوف علی المسجد الجامع ان لم یکن للمسجد حاجۃ للحال فللقاضی ان یصرف فی ذلک لکن علی وجہ القرض۔
یہ بھی فیصلہ ہوا کہ اگر فاضل آمدنی کا ضیاع متولیان یا واقفین کی دست اندازی سے ہو رہا ہے تو اولا ایسے متولیان اور واقفین کو معزول کرنا واجب ہے ، لیکن اس مسجد کی فاضل آمدنی مسجد محتاج کو بے شرط واپسی دینا یہ جائز ہے یا نہیں اس پر آئندہ سیمینار میں تیاری کے ساتھ بحث کی جائے۔ فقط
تیسرے فقہی سیمینار کی مجلس پنجم کا فیصلہ بمقام: مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا مورخہ١٢/جمادی الآخرہ ١٤٢٧ھ بروز یکشنبہ /مطابق ٩/جولائی ٢٠٠٦ء
١)اصل حکم یہ ہے کہ منقولات کی بیع مبیع پر قبضہ کیئے بغیر ناجائز و فاسد ہے، اور جائداد غیر منقول کی بیع قبل قبضہ غیر بائع کے ہاتھ جائز ہے مگر جس سے مول لی تھی اس کے ہاتھ قبضہ سے پہلے اشیاء غیر منقولہ کی بیع بھی جائز نہیں بلکہ قبضہ لازم ہے۔ (فتاویٰ رضویہ ج٧،ص٢٤٣،قبیل باب الاستصناع)
٢)عالمی تجارتوں میں قبضہ سے پہلے جو مبیع کی بیع دربیع ہوتی ہے وہ اصل حکم کی رو سے فاسد ہے مگر جس مشتری نے ایسے بائع سے خریدا جسے قبضہ حاصل ہو گیا تھا بیع صحیح ہے۔ (ہدایہ مع فتح القدیر ج٦،ص٢٤٧پوربندر،درمختار مع ردالمحتار ج ٤ ، ص ۱۴۵
٣) بیع در بیع جو عدم قبضہ کے سبب فاسد ہے اس کے جواز کی وہ صورتیں اختیار کی جائیں جو ''فتاویٰ رضویہ '' اور '' بہار شریعت'' میں مذکور ہیں مثلاً مشتری نے مبیع کو ہبہ کیا ، بائع کو ہبہ کرنے یا کسی کے پاس ودیعت رکھنے کو یا سپرد کرنے کو کہایا اپنے کسی ظرف میں رکھنے کو کہا پھر موہوب لہ نے قبضہ کر لیا یا بائع نے ودیعت رکھ دی ، سپرد کردیا، ظرف میں رکھ دیا جس سے قبضہ مشتری کہلائے تو اب مشتری کا قبضہ ہو گیا اور اگر بائع سے بیچنے کو کہا تو بائع کے بیچنے سے قبضہ نہ ہوگا وکیل بالقبض کا بھی قبضہ، قبضئہ مشتری ہے تو مسلم تاجروں کو اسی طرح کی کوئی تدبیر قبضہ اختیار کر نی ضروری ہے تاکہ بیع فساد سے محفوظ ہو اور جائز ہو جائے کہ اب بیع قبل قبضہ نہیں۔ فقط
جو گزشتہ دوسرے سیمینار ١٤٢٦ھ میں زیر غور تھا اور آج کے تیسرے فقہی سیمینار ١١/١٢/جمادی الآخرہ ١٤٢٧ھ مطابق ٨/٩/جولائی ٢٠٠٦ء میں اس کا فیصلہ ہوا۔
ایک قاضی کا اعلان رویت ہلال اگرچہ وہ قاضی پورے ملک یا چند شہروں کا ہو صرف اسی شہر اور مضافات شہر کے لئے کافی و وافی ہوگا جہاں اس نے فیصلئہ رویت صادر کیا ہے۔ اس رویت سے دوسرے شہروں کے لئے ثبوت رویت طرق موجبہ میں سے کسی ایک طریقے سے ہی ہوگا ۔ مجدد اعظم سیدنا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ، فرماتے ہیں.:
شریعت مطہرہ نے دربارئہ ہلال دوسرے شہر کی خبر کو شہادت کا فیہ و تواتر شرعی پر بنا فرمایا اور ان میں بھی کافی شرعی ہونے کے لئے بہت قیود و شرائط لگائیں جن کے بغیر ہرگز ہرگز گواہی و شہرت بکار آمد نہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٤،ص٥٢٣،رضا اکیڈمی ممبئی
٢)یہیں سے ثابت ہوا کہ ٹیلیفون کی خبر اگرچہ کسی کی ہو اور کتنی ہی تعداد میں کہیں سے ہو اس سے استفاضہ و تواتر بلکہ شہادت کا تحقق نہیں ہوسکتا۔ فقط ْ

ناظم: شرعی کونسل آف انڈیا
٨٢/سوداگران بریلی شریف

|  HOME  |