پانچواں فقہی سیمینار ،شرعی کونسل آف انڈیا، بریلی شریف ٢٠٠٨

سوال نا مہ
سوال نمبر ۱
تبدیلیئ جنس کی شرعی حیثیت:۔
میڈیکل سائنس نے اپنی ترقی کی بنیاد پر جہاں بہت سی آسانیاں پیدا کی ہیں وہیں بہت سی مشکلات بھی کھڑی کردی ہیں، شرعی و اخلاقی حدود کا پاس و لحاظ نہ سائنس کا مقصود ہے اور نہ ہی اس کے اکتشافات سے اس قسم کی امیدیں وابستہ رکھنا دانش مندی ہے ، ہمیں تو ہر حال میں ہر پیش آنے والے مسئلہ کا حل شرعی نقطئہ نظر سے دنیا والوں کے سامنے پیش کرنا ہے۔ میڈیکل سائنس کے حوالے سے سرجری اور آپریشن کے میدان کی ایک خبر پرنٹ میڈیا و الیکڑانک میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے ، اور وہ ہے تبدیلیئ جنس کا مسئلہ یعنی بذریعہ آپریشن مذکر کو مؤنث میں تبدیل کرنا یا مؤنث کو مذکر میں تبدیل کرنا ۔ پہلی صورت کے تعلق سے راشٹریہ سہارا مورخہ ٦/اپریل ٢٠٠٨ء کو ص١٢ پر یہ خبر شائع ہوئی ہے۔ جس کا عنوان ہے ۔ ''جنس تبدیل کرانے والا امریکی مرد حاملہ''

امریکہ میں ایک مرد جس نے دس برس قبل اپنی جنس تبدیل کروائی تھی ، اب حاملہ ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس کایہ بچہ ایک معجزے سے کم نہیں دس برس قبل جب تھامس بییی ایک آپریشن کے ذریعے عورت سے مرد بنے تھے تو انہوں نے اپنے تولیدی نظام کو تبدیل نہیں کروایا تھا۔ اب تھامس ، جو چونتیس برس کے ہیں، کا کہنا ہے کہ بچہ پیدا کرنا ان کا حق ہے۔ مسٹر تھامس کی بیوی نے ایک اسپرم بنک سے حاصل کئے گئے اسپرمز کو ایک سرنج کی مدد سے مسٹر تھامس کے جسم میںداخل کیا ، جس سے حمل ٹھہرا ان کے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ان کا حمل بالکل نارمل ہے ، تھامس کا کہنا ہے کہ بچہ پیدا کرنے کی خواہش زنانہ یا مردانہ نہیں بلکہ ایک انسانی خواہش ہے اور میں ایک مستحکم مردانہ شناخت بھی رکھتا ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ دس برس قبل جب انہوں نے جنس تبدیل کروانے کا آپریشن کروایا تھا تو اس وقت اپنے تولیدی نظام کو برقرار رکھا تھا کیو ں کہ وہ ایک دن بچہ پیدا کرنا چاہتے تھے۔

اور دوسری صورت کے تعلق سے ہندوستان کے صوبہ گجرات سے حاجی عمر نور محمد بھگاڈ دھوراجی گجرات کا یہ استفتاء آیا۔ واضح رہے کہ استفتاء میں درج واقعہ پرنٹ میڈیا و الیکٹرانک میڈیا کے توسط سے بھی ملک و بیرون ملک میں نشر ہو چکا ہے ۔ ''میرے یہاں ١١/اپریل ١٩٨١ء کو ایک بچہ پیدا ہوا ظاہری شکل میں وہ لڑکی تھا لیکن تین سال کی عمر سے اس کی تمام عادتیں تمام شوق اورتمام طریقے لڑکے کے تھے گھروالے اس کا بچپن سمجھ کر اس کے لئے زیادہ فکر مند نہیں تھے جیسے جیسے اس کی عمر بڑھتی گئی ویسے ویسے اس کی لڑکے والی عادتیں مثلاً کھیل کود کپڑے کی پسندیدگی اسکا ملنا جلنالڑکوں کے ساتھ بڑھتا گیا وہ لڑکیوں سے دور رہنے لگا کچھ عمر کے بعد گھر والے پریشان اور فکر مندہوکر کئی شائکا ٹرکٹ ڈاکٹروں [ذہن، دماغ، نفس کے ماہر طبیبوں] سے ملاقات اور بیٹھک کرائی گئی لیکن ایسا کرنے پر بھی اس کی عادتوں اور حرکتوں میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی خود کی یہ حالت سے خود بھی بہت پریشان تھی اور اپنے آپ کو سمجھنے کے لئے دنیا کے بڑے بڑے ڈاکٹروں سے انٹرنیٹ کے ذریعہ رابطہ قائم کیا اس کے باوجود اس کی حالت کا چند علمائے دین سے کئی بار تذکرہ کیا مگر ان کی طرف سے کوئی معقول مشورہ قائم نہیں ہوتا تھا آخر کار ہندوستان کی مشہور سیتارام بھارتیہ انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ریسرچ ، نیو دہلی سے رابطہ کیا وہاں ماہران نفس ڈاکٹروں کے ساتھ کئی بیٹھک کی گئیں انہوں نے جینڈر آیڈینٹیٹی ڈس آرڈر مرض عرف تبدیلئہ جنس جس میں انسان اپنے نفس کے خلاف کا جسم پاتا ہے وہ بیماری پائی انہوں نے سرجنوں کی ٹیم کے پاس یہ پورا کیس (Case)معاملہ بھیجا جہاں اس کے جسم میں خون کی جانچ اور دماغ کی جانچ سو نو گرافی کے ذریعہ اور دوسری بلڈ (Blood)جانچ کے ذریعہ مردوں کے آثار بہت زیادہ پائے ان کا مشورہ یہ تھا کہ اس حالت میں مریض زیادہ وقت تک رہ نہیں سکتا اور مسلسل گھٹن اور پریشانی میں رہتا ہے ۔ اسکے لئے اس کے ذہن کے مطابق اس کا جسم ہونا ضروری ہے چند آپریشنوں کے بعد اس کو پوری طرح کئی ڈاکٹروں نے مل کر مرد میں تبدیل کردیا جس کے سرٹیفیکٹ سند سرجنوں اور ماہران نفس کے انگریزی میں اور اردو میں اس کے ساتھ ہیں لڑکا ہونے کے بعد پورے پورے مرد ہونے کے بعد اس نے اپنے رشتہ دار کی بیٹی کے ساتھ مہر دیکر اور گواہ رکھ کر مولانا کے پاس نکاح پڑھا اس عورت نے اسے پوری طرح مرد تسلیم کیا پوری سوسائٹی میں اس کے لئے بڑا ہنگامہ ہوا کہ یہ شادی ناجائز ہے ہم علمائے کرام سے اس بارے میں رائے چاہتے ہیں کہ شادی صحیح ہے یا نہیں اس کا مرد ہوجانا پوری طرح سے صحیح ہے یا نہیں؟ اس کے عضو تناسل کو اس کے جسم کے اندر کے حصہ سے نکال کر مکمل بنایا گیا ہے اس کے تمام آپریشن ہوچکے ہیں اور اس طرح سے تسلی بخش کام کرتا ہے یہ دو زندگی کا مرد اور عورت کا سوال ہے مرد عورت ایک دوسرے کو چھوڑنا نہیں چاہتے آپ حضرت پوری طرح اس پر غور و فکر کر کے اس کا جواب عنایت فرمانے کا کرم کریں عین نوازش ہوگی''

استفتاء کے ساتھ سرجنوں و ماہران نفس کی رپورٹ اور سرٹیفیکٹ میں اس بات کی بھی وضاحت ہے کہ ایسے مریض کی اس حالت کی نہ کوئی دوا ہے اور نہ کوئی علاج علاوہ یہ کہ اصلاحی آپریشن کے ذریعہ اندرونی ہارمونس کی مغلوب مقدار کو غالب مقدار میں بدل دیا جائے ، مثلاً اگر مریض مونث ہے اور اس کے اندر مذکر والے ہارمونس (Hormones) کا غلبہ ہے تو مؤنث ہارمونس کا بذریعہ آپریشن اخراج کر کے مذکر ہارمونس داخل کر دیئے جاتے ہیں، پھر بذریعہ آپریشن اعضا مؤنثہ (پستان، رحم، فرج)کو نکال کر باہر کردیا جاتا ہے اور اس کی جگہ مذکر اعضاء لگادیئے جاتے ہیں ، پھر آپریشن کے اس عمل کو تبدیلیئ جنس کا عنوان دیا جاتا ہے ۔ لیکن یہ کبھی شوقیہ ہوتا ہے اور کبھی مرض پیچاں لاحق ہونے کی صورت میں جیسا کہ مذکورہ بالا دونوں واقعات سے عیاں ہے ۔ تخلیقی اعتبار سے مرد ایک الگ جنس ہے اور عورت الگ جنس، قرآن کریم میں اﷲ عزوجل فرماتا ہے :یا ایہا الناس اعبدوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدۃ و خلق منہا زوجہا و بث منہما رجالا کثیرا ونسائ۔(نسائ)دوسری جگہ ارشاد ہے: یہب لمن یشاء اناثا ویہب لمن یشاء الذ کور(شوریٰ ) اس لئے بذریعہ دوا و آپریشن مرد کو عورت میں تبدیل کرنا یا عورت کو مرد میں تبدیل کرنا اسلامی نقطئہ نظر سے بچند وجوہ حرام معلوم ہوتا ہے ۔ اوّلاً:یہ تغییر خلق اﷲ ہے۔ جو بنص قرآن و حدیث حرام ہے ۔ قال اﷲ تعالیٰ ولاٰ مرنہم فلیغیرن خلق اﷲ(سورہ نساء آیت ١١٩) شیطان بولا میں ان کو بہکاؤں گا تو وہ اﷲ کی پیدا کی ہوئی چیز کو بدلیں گے۔

حاشیہ جلالین شریف میں ہے: والمشہور تفسیر تغییر الخلق بتغیر صورۃ الحیوان بفقاء عین الحامی وخصاء بنی آدم والوشم والوشروالواسطۃ والسحق وتغیر الشیب بالسواد والوصل والنمص۔ (حاشیہ جلالین بحوالہئ مدارک)تفسیر صاوی میں ہے: ومن ذلک تغییر الجسم (ج ا ص٢٣١)۔
ثانیاً: ستر و غلیظ ستر کو غیر محرم ڈاکٹر چھوتا کاٹتا ہے جو انتہائی بے حیائی کا کام ہے ۔
ثالثاً:مرد کا اپنے آلئہ تناسل کو ختم کرنایا عورت کا اپنے فرج و پستان کو ختم کرنا اپنے کو ایک خلقی حق سے محروم کرنا ہے بلکہ خصی ہونے کے حکم میں ہے۔حدیث میں حضور اقدس ؐ فرماتے ہیں: لیس منا من خصیٰ أو اختصیٰ، جس نے کسی کو خصی کردیا یا خود خصی ہوگیا وہ ہم میں سے نہیں۔ضرورت ہے کہ علماء و فقہا اسلامی نقطئہ نظر واضح فرمائیں۔ ان حالات میں اس تعلق سے کئی طرح کے سوالات ابھرکر سامنے آئے ہیں جو آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔

۱۔ عام نارمل حالات میں تبدیلیئ جنس کا شرعی حکم کیا ہے؟ اگر ضرورت شرعیہ یا حاجت شرعیہ متحقق ہو تو کیا شرعاً تبدیلیئ جنس کی اجازت دی جا سکتی ہے؟
۲۔ کیا تبدیلیئ جنس کے آپریشن کے بعد شرعاً پہلی جنس تبدیل ہوجاتی ہے اور آدمی دوسری جنس کا ہوجاتا ہے؟
۳۔ اور بہر صورت دینی و دنیوی معاملات ومسائل میں کس جنس کے احکام نافذ ہوں گے ؟

مفتی آل مصطفی مصباحی رکن شرعی کونسل آف انڈیا بریلی شریف وخادم جامعہ امجدیہ رضویہ ،گھوسی
سوال نمبر ۲
حوالہ و دو ملک کی کرنسیوں کے تبادلے کا شرعی حکم:۔
حوالہ کمپنی دو طرح کی ہوتی ہے کچھ تو رجسٹرڈ و منظور شدہ ہوتی ہیں اور کچھ غیر منظور شدہ مگر دونوں ہی قسم کی پرائیویٹ کمپنیوں کا بنیادی کام یکساں ہوتا ہے یہ کمپنیاں ملک و بیرون ملک میں ترسیل زر و مبادلئہ زر کا کاروبار کرتی ہیں اندرون ملک یہ کاروبار دو طرح سے انجام دیا جاتا ہے ۔ عموماً اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے ، ایک شخص مثلاً زید گھر سے دور کسی شہر میں رہتا ہے وہاں سے وہ جلد از جلد اپنی رقم گھر والوں تک پہنچانا چاہتا ہے۔
زید اپنی رقم لے کر حوالے کا کاروبار کرنے والے فرم سے رابطہ قائم کرتا ہے ۔ اور اس فرم کمپنی کو رقم مع فیس دیتا ہے وہ کمپنی مطلوبہ شہر میں اپنے نمائندے یا حلیف کو فون کردیتی ہے کہ فلاں شخص کو اتنی رقم پہنچادو۔ وہ نمائندہ چند منٹوں یا چند گھنٹوں میں وہ رقم پہنچادیتا ہے ۔ ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ طالب حوالہ حوالہ کمپنی سے ادھار معاملہ کرتا ہے بایں طور کہ اتنی رقم میرے فلاں آدمی کو فلاں شہر میں پہنچادو۔ میں ہفتہ عشرہ میں وہ رقم مع فیس ادا کردوں گا ، اب اس کمپنی کا نمائندہ متعلقہ شہر میں نامزد شخص کو رقم دے دیتا ہے۔
بذریعہ حوالہ رقم بھیجنے کے کئی فائدے ہوتے ہیں ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ رقم بہت جلد پہنچ جاتی ہے جب کہ بذریعہ بینک یا ڈاک خانہ رقم بھیجنے میں کافی تاخیر ہوجاتی ہے۔
دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ڈاک خانہ کی فیس سے حوالہ کی فیس نسبتاً کم ہوتی ہے تیسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی از خود رقم لے کر ایک شہر سے دوسرے شہر آئے جائے تو رقم کے چوری ہونے، ضائع ہونے، اچکوں کے ہاتھ لگنے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے اور حوالہ کمپنی کے ذریعہ رقم بھیجنے میںیہ خطرات نہیں ہوتے ہیں۔
غیر منظور شدہ حوالہ کے کاروبار کا تعلق اعتماد پر ہوتا ہے ، یہ محض زبانی ہوتا ہے ، مگر پر اعتماد ہوتا ہے لیکن اگر خدانخواستہ رقم ڈوب گئی تو کسی پر دعویٰ بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ کیوں کہ اس کا کوئی قابل گرفت یا قانونی ریکارڈ نہیں ہوتا۔ اور ملکی قانون کی نگاہ میں اس کا روبار کو جرم بھی تصور کیا جاتا ہے ۔
یہ کارو بار شرعی نقطئہ نگاہ سے بھی حوالے کے زمرہ میں آتا ہے کیوں کہ اس پر حوالہ کی تعریف صادق آتی ہے۔تنویر الابصار و درمختار میں حوالہ کی تعریف یہ کی گئی ہے: ہی لغۃ النقل و شرعا نقل الدین من ذمۃ المحیل إلی ذمۃ المحتال علیہ المد یون محیل والد ائن محتال و محتال لہ و محال و محال لہ ویزاد خامس وہو حویل ومن یقبلہا محتال علیہ ومحال علیہ والمال محال بہ (ج٨ص١تا٥ کتاب الحوالہ)۔
کفایہ میں ہے: وھی فی الشریعۃ نقل الدین من ذمۃ المحیل إلی ذمۃ المحال علیہ۔ (حاشیئہ ہدایہ ج ٣ص١٢٩) بہار شریعت میں اس کا خلاصہ بایں الفاظ ہے۔ دین کو اپنے ذمہ سے دوسرے کے ذمہ کی طرف منتقل کر دینے کو حوالہ کہتے ہیںمدیون کو محیل کہتے ہیں اور دائن کو محتال، اور محتال لہ، اور محال اور محال لہ اور حویل کہتے ہیں، اور جس پر حوالہ کیا جائے اس کو محتال علیہ اور محال علیہ کہتے ہیں اور حال کو محال بہ کہتے ہیں (بہار شریعت ج١٢ ص٣٨)۔
اگر یہ دین قرض کی جہت سے ہو تو دشواری یہ ہے کہ یہاںطالب حوالہ مقرض ہے جو سقوط خطر طریق کا فائدہ اٹھا رہا ہے جو ناجائز ہے تو یہ سفتجہ یا ہنڈی کے زمرے میں داخل ہوجائے گا ہدایہ میں ہے: ویکرہ السفاتج وہی قرض استفاد بہ المقرض سقوط خطر الطریق وہذا نوع نفع استفید بہ وقد نہی الرسول علیہ السلام عن قرض جرنفعاً۔
کیا مروّجہ حوالہ میں سودی بلا سے مکمل یا جزوی طور پر بچنے کی یہ صورت ہو سکتی ہے جو فتاویٰ رضویہ میں مجدد اعظم امام احمد رضا قدس سرہ، نے ذکر فرمایا ۔ ایک استفتاء کے جواب میں وہ فرماتے ہیں: ''قرض تحویل کرادینے کی رائے بالکل خیر ہے زید اس دوسرے ہندو کو پانچ ہزار اڑتیس خالص قرض کی نیت سے دے پانچ ہزار سے جتنا زیادہ دیتا ہے اس میں پہلے ہندو کے سود کی نیت نہ کرے پھر پہلے ہندو سے کہہ کر اس کا قرضہ دوسرے پر اتروادے اور اس میں قانونی احتیاط کرلے کہ دھوکہ نہ پائے یوں بالکل سود دینے سے زید بچ جائے گا چالیس پچاس روپیہ جو زیادہ جائے گا وہ یوں ہوگا کہ قرض دیا تھا۔ اور مارا گیا یا قرض دار پر چھوڑ دیا محسوب نہ ہوگا۔ رہا یہ کہ وہ دوسرا ہندو اس روپئے کو سود پر چلائے گا یہ اس کا فعل ہے بلکہ تنہا اس کا بھی فعل نہیں جب تک اسے کوئی قرض لینے والا نہ ملے تو اس کا الزام زید پر نہیں آسکتا ہے : قال تعالیٰ ''لاتزر وازرۃ وزر اخری'' ہدایہ میں ہے ''انما المعصیۃ بفعل المشاجر وہو مختار فیہ فقطع نسبتہ، عنہ'' یوہیں اگر بعض قرض کے ساتھ ایسا کر سکے تو بعض ہی سے سہی کہ جتنی معصیت سے بچے یا جتنا مال حرام میں دینے سے محفوظ رہ سکے اس قدر کی تد بیر واجب ہے۔'' (فتاویٰ رضویہ ہفتم ص٢٨٥)۔ یا اس معاملے کو بیع و شراء یا اجارہ قرار دیا جائے ؟
دو ملک کے کرنسیوں کے تبادلہ کی نوعیت کچھ اس طرح ہوتی ہے ۔ ایک ملک سے دوسرے ملک کرنسی بھیجنے والا عموماً بعینہ وہ کرنسی نہیں بھیجتا بلکہ حوالہ کمپنی سے معاملہ کرتا ہے۔ کمپنی کو اپنی کرنسی دیتا ہے اور کمپنی دوسرے ملک میں اپنے نمائندے کے ذریعے اس کرنسی کی مالیت کی بقدر معاملہ کرنے والے شخص کے متعلق کو ادا کر دیتی ہے ۔ یہ صورت حال قرض کی ہے یا بیع و شراء کی یا اجارہ کی ۔ قرض کی ہو تو محذور مذکور یہاں بھی لازم ، اجارہ ہو تو اجیر پر بعینہ وہ رقم پہنچانا لازم ، ورنہ بوجہ تصرف امانت غاصب ٹھہرے گا اور مستحق اجیر نہ رہے گا۔ فی الہندیہ عن التتار خانیۃ لواستاجر لیعمل ہذہ الدراہم الی فلان فانفقہا فی نصف الطریق ثم دفع مثلہا الی فلان فلا اجرلہ لانہ ملکہا باداء الضمان۔ جب کہ صورت مبحوث عنہا میں بدل پہنچایا جاتا ہے نہ کہ اصل۔
اور اگر بیع و شراء قرار دیا جائے جب بھی دشواری یہ ہے کہ اگر دو ملک کی کرنسیاں جنس واحد ہوں تو تعیین بھی ضروری ہے اور قبضہ بھی ۔ ورنہ ادھار ہونے کی وجہ سے حرام ہوگا ۔ فی الہدایہ اذا وجد احدہما وعدم الآخر حل التفاضل حرم النساء (ج٣ ص٧٩ کتاب البیوع)۔
جبکہ حوالہ اور کرنسیوں کے تبادلہ میں یہ شرط عموماً مفقود ہوتی ہے ۔ ہاںاگر دو ملکوں کی کرنسیوں کو دو جنس مانا جائے تو قبضہ کی شرط نہ ہوگی ۔ اس نوع کی ترسیل زرو مبادلئہ زر اور کاروبار کی شرعی حیثیت پر غور کر کے حکم شرعی واضح کرنا ہے ۔ جس کے لئے درج ذیل سوالات آ پ کی خدمت میں پیش ہیں۔
۱۔ حوالہ و دو ملک کی کرنسیوں کے ادھار تبادلے کا معاملہ سفتجہ و ہنڈی ہے یا اجارہ یا قرض یا بیع و شراء یا من وجہ قرض و من وجہ اجارہ؟
۲۔ اور بہر صورت اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ اگر حوالہ کے ذریعے رقم کی ترسیل و تبادلہ کا معاملہ ناجائز ہو تو اس کے جواز کا کوئی حیلہ ہے یا نہیں؟
۳۔ اس ضمن میں یہ وضاحت بھی مطلوب ہے کہ دو ملک کی کرنسیاں جنس واحد ہیں یا مختلف جنس؟
۴۔ منظور شدہ کمپنی وغیر منطور شدہ کمپنی سے حوالہ و تبادلہ کے احکام یکساں ہوں گے یا مختلف ہوں گے؟ کیا مسلمانوں کو غیر منظور شدہ کمپنیوں سے رقم منگوانا جائز ہوگا؟
۵۔ حوالہ کا کاروبار ملکی قانون کی رو سے جرم ہے، تو کیا مسلمانوں کو یہ اجازت ہوگی کہ وہ حوالہ کا کاروبار کریں؟
امید کہ درج بالا سوالات کے تحقیقی جواب سے شاد کام فرمائیں گے۔
مفتی آل مصطفی مصباحی رکن شرعی کونسل آف انڈیا بریلی شریف وخادم جامعہ امجدیہ رضویہ ،گھوسی
سوال نمبر ۳
منیٰ و مزدلفہ کی توسیع و تحدید کی شرعی حیثیت:۔
یہ حقیقت روز روشن سے بھی زیادہ عیاں و آشکارا ہے کہ حج بیت اﷲ شریف اسلام کا ایک اہم فریضہ اور عظیم دینی شعار ہے جسے اﷲ رب العزت نے بندوں پر ان کی وسعت کے اعتبار سے ایک بار فرض فرمایا جیسا کہ نصوص قرآن شاہد ہیں۔وعلی کل ضامریاتین من کل فج عمیق:وللّٰہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا۔
حج کے ارکان و مناسک پر غائرانہ نظر ڈالنے سے یہ ظاہر و باہر ہے کہ شارع نے ان کی ادائے گی کے لئے زمان و مکان کی تحدید فرمائی کہ انہیں اوقات و مقامات میں ارکان و مناسک معتبرہوں گے شارع کے مقرر فرمودہ حدود سے کوئی مکلف بندہ سرمو انحراف نہیں کرسکتا کعبۃ اﷲ شریف کا طواف اور صفا مروہ کی سعی مطاف اور مسعی ہی میں شرعاً معتبر ہے۔ عرفہ و مزدلفہ کا وقوف اور رمی جمار، عرفہ و مزدلفہ اور جمرات ثلثہ ہی کے ساتھ خاص ہیں احرام کے لئے الگ الگ ملکوں کے میقات بھی خاص و معین ہیں بندہ شارع کی ان حدود کو توڑ نہیں سکتا کہ مومن بندہ پر شارع کے مقرر فرمودہ حدود کی اتباع لازم اور ضروری ہے تلک حدود اﷲ فلا تعتدوہا ومن یتعد حدود اﷲ فاولئک ہم الظالمون"

کئی سالوں سے یہ دیکھا جارہا تھا کہ منی میں قیام کرنے والے حجاج کے خیمے منی میں لگتے اور مزدلفہ کے کچھ خاص حصے میں بھی، ظاہر ہے کہ قیام منی کے دوران جو عبادتیں اور نمازیں منی میں مسنون ہیں اگر انہیں مزدلفہ کے اس خاص حصہ میں ادا کرلیا جائے جہاں منی میں قیام کرنے والے حاجیوں کے قیام کا اہتمام منی میں نہ کرکے خاص مزدلفہ کے حصہ میں کیا گیا ہے تو منی کی مسنون نماز اور عبادت تو نہ ہوئی جسے شارع علیہ السلام اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام اور امت کے سلف و خلف نے منی ہی میں ادا فرمایا سنت سے تو اسی وقت عہدہ بر آ ہوگا جب کہ خاص منی کے حدود میں ادا کرے اس سے ہٹ کر کہیں اور نہ ادا کرے۔
قیام منی کے متعلق یہ بات معلوم ہوئی کہ پہلے تو صرف مزدلفہ کے کچھ خاص حصہ میں خیمہ لگا دیئے جاتے لیکن آج باضابطہ منی کی حد میں توسیع کردی گئی ہے اور منی کے حدود میںمزدلفہ کا کچھ خاص حصہ شامل کر لیا گیا ہے آج مزدلفہ کا وہ حصہ مزدلفہ کے بجائے منی قرار دے دیا گیا جہاں حجاج نہ صرف قیام کرتے ہیں بلکہ اس سے منی کی خاص حد سمجھ کر منی کی خاص مسنون عبادت و نماز ادا کرتے ہیں جسے شارع علیہ السلام نے خاص منی ہی میں ادا فرمایا ہے ظاہر ہے کہ منی حرم شریف کے حدود میں داخل ہے اور ارکان و مناسک و عبادات و نمازیں شارع نے خاص اوقات و مقامات ہی میںمقرر فرمایا ہے تو منی کے حدود کی توسیع کیا ملکوں، صوبوں اور ضلعوں کی تحدید و توسیع کی طرح ہے کہ ارباب حل و عقد اور اصحاب تصرف و اختیار و اقتدارکو ہمہ وقت تحدید و توسیع کی بالا دستی حاصل رہتی ہے جن کی پابندی ملک کے ہر باشندے پر لازم ہوتی ہے آج کے اس جدید ترقی یافتہ دور میں جب منی کی حدکی توسیع و تحدید سننے میں آئی جو عہد رسالت و عہد صحابہ و تابعین میں نہ تھی تو یہ مسئلہ خاص توجہ کا طالب ہوا کہ

۱۔ منی کی موجودہ توسیع و تحدید کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ شرعاً معتبر ہے؟ اور مزدلفہ کا وہ خاص حصہ جو منی میں شامل کردیا گیا کیا اب مزدلفہ نہ رہا بلکہ منی ہوگیا؟ یا اب بھی وہ مزدلفہ ہی ہے منی نہیں کہ شارع علیہ السلام کے عہد سے قائم تشریعی حد میں کسی کو تغییر و توسیع کا حق نہیں کہ عہد شارع علیہ السلام میں جو اس کی خاص حد تھی اسی میں ارکان و مناسک و عبادات وغیرہ معتبر ہوں گے دوسرے مقامات و مواضع میں نہیں گو کہ وہ حدود حرم شریف ہی سے کیوں نہ ہوں؟
۲۔ اگر مزدلفہ کا وہ خاص حصہ جسے آج حدود منی سے قرار دیا گیا ہے اگر وہ ملکوں صوبوں اور ضلعوں کی تحدید و توسیع کی طرح خاص حدود منی سے ہو تو دوران قیام منی اگر حاجی منی کی مسنون عبادات و نماز اس خاص حصہ میں ادا کرے تو کیا سنت سے عہدہ برآ ہو جائے گا،اور خاص منی کی مسنون عبادات و نماز قرار پائے گی یا نہیں؟
۳۔ وقوف مزدلفہ حج کے واجبات سے ہے اگر کسی نے مزدلفہ کے اس خاص حصہ میں وقوف کر لیا جو عہد رسالت میں مزدلفہ تھا اور آج منی کی حد قرار دے دیا گیا ہے تو کیا اس واجب سے سبکدوشی کے لئے یہ وقوف کافی ہوگا یا مزدلفہ کی موجودہ حد میں اس وقوف واجب کا اعادہ واجب ہوگا؟
۴۔ مزدلفہ کا وہ خاص حصہ جو آج موجودہ منی کردیا گیا ہے کیا اس میں قیام و دخول رمی واجب کا موجب ہوگا؟
مجھے آپ حضرات مفتیان کرام کی گونا گوں مصروفیات کے باوجود امید قوی ہے کہ سوالات کے تمام گوشوں پر گہری نظر فرماکر فقہی جزئیات و شواہد کی روشنی میں جواب با صواب سے شاد کام فرمائیں گے۔ والسلام مع الاکرام

مفتی محمود اختر امجدی رضوی رکن شرعی کونسل آف انڈیا بریلی شریف
جوابات/فیصلے
جواب نمبر ۱
تبدیلیئ جنس کا شرعی حیثیت:۔
۱۔ موجودہ حالات میں تبدیلیئ جنس کی کوشش حرام ہے اور اس کا عمل کرانا بدرجہ اولیٰ حرام ہے اور تبدیل جنس کی کوئی ضرورت شرعیہ نہیں ہے اور نہ حاجت شرعیہ،البتہ ڈاکٹروں کے کہنے کے مطابق اگر اسکی دماغی حالت اس مریض کے لئے مہلک ہو تو اس کے دماغ کا مناسب علاج کیا جائے۔واللہ تعالیٰ اعلم۔

۲۔ ڈاکٹروں کے کہنے کے مطابق آپریشن سے جو جنسی تبدیلی ہوتی ہے وہ شرعا تبدیل جنس نہیں۔اس سائنسی عمل سے پہلے انسان جس جنس میں شمار ہوتا تھا اس سائنسی عمل کے بعد بھی اسی جنس میں شمار ہوگا۔واللہ تعالیٰ اعلم۔

(۳۔ مذکورہ بالا فرضی تبدیلیئ جنس کے بعد بھی اس کے دینی و دنیاوی احکام ومعاملات وہی ہوںگے جو پہلے تھے،البتہ ایسے افراد سے معاشرے میں فتنوں کا اندیشئہ قوی ہے اس لئے سد باب فتنہ کے لئے ان پر شرعی پابندیاں عائد کی جائیں،اس قسم کے کسی مصنوعی وجعلی مرد کا کسی عورت یا مصنوعی وجعلی عورت کا کسی مرد سے نکاح ہرگز صحیح نہیں۔واللہ تعالی اعلم۔
(دستخط اراکین فیصل بورڈ)
۱۔ قاضی القضاۃ تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد اختر رضا قادری ازہری مدظلہ العالی
۲۔ محدث کبیر حضرت علامہ مفتی ضیاء المصطفیٰ قادری امجدی دام ظلہ العالی
۳۔ ماہر ہفت لسان حضرت علامہ مفتی محمد عاشق الرحمن حبیبی مدظلہ العالی

شرعی کونسل آف انڈیا بریلی شریف کے پانچویں منعقدہ فقہی سیمینار٢٢،٢٣/ رجب المرجب ١٤٢٩ھ/٢٦،٢٧/جولائی٢٠٠٨ئ بروز ہفتہ، اتوار
جواب نمبر ۲
حوالہ و دوملک کی کرنسیوں کے تبادلے کاشرعی حکم:۔
۱۔ ہر قسم کے کرنسی نوٹ خواہ ایک ملک کے ہوں یا مختلف ملک کے سبھی ثمن اصطلاحی اور مال متقوم ہیں کما ھو مصرح فی الفتاویٰ الرضویۃ مرارا کثیرۃ و علیہ العمل عند علماء العالم قاطبۃ۔
۲۔ ممالک مختلفہ کے کرنسی نوٹ اگرچہ مختلف ناموں سے موسوم ہوں نوع واحد ہیں کہ ان سب کی اصل کاغذ ہے اور اغراض و مقاصد بھی متحد ہیں یعنی قوت خرید، اگرچہ کرنسی نوٹ مالیت میں مختلف ہیں اور یہ اختلاف تقوم کی قلت و کثرت کا ہے نہ کہ نوع کا یہ ایک ملک کے مختلف المالیۃ کرنسی نوٹ کی طرح ہیں۔
۳۔ کرنسی نوٹوں کودوسرے نوٹوں سے خواہ ایک ملک کے ہوں یا چند ممالک کے (تعیین البدلین) کے ساتھ ان پر لکھی ہوئی قیمتوں سے کم و بیش پر بیع کرنا جائز ہے البتہ ثمنیت کی وجہ سے احد البد لین پر قبضہ ضروری ہے جیسا کہ فتاویٰ رضویہ کے رسالہ ''کفل الفقیہ الفاھم فی احکام قرطاس الدراھم''میں ہے:- ''وتحقیق ذالک ان بیع النوط بالدراھم کالفلوس بھالیس بصرف حتی یجب التقابض فان الصرف بیع ما خلق للثمنیۃ بما خلق لھا کما فسرہ بہ البحر والدروغیرھماو معلوم ان النوط والفلوس لیست کذالک وانما عرض لھا الثمنیۃ بالاصطلاح مادامت تروج والافعروض و بعدم کونہ صرفا صرح فی ردالمحتار عن البحر عن الذخیرۃ عن المشائخ فی باب الربا نعم لکونھا اثمانا بالرواج لا بد من قبض احدالجانبین والا حرم لنھیہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عن بیع الکالی بالکالی والمسألۃ منصوص علیھا فی مبسوط الامام محمد واعتمد ہ فی المحیط للامام السرخسی والحاوی والبزازیۃ والبحر والنھر وفتاویٰ الحا نوتی والتنویر والھندیۃ وغیرھا وھو مفاد کلام الا سبیجابی کما نقلہ الشامی عن الزین عنہ''فتاویٰ رضویہ ٧/١٤٧،رضا اکیڈمی ممبئی۔
فقیہ اعظم حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ والرضوان بہار شریعت میں فرماتے ہیں:- ''نوٹ کو نوٹ کے بدلے میں بیچنا بھی جائز ہے اور اگر دونوں معین کر لیں تو ایک نوٹ کے بدلے میں دونوٹ بھی خرید سکتے ہیں جس طرح ایک پیسے سے معین دو پیسوں کو خرید سکتے ہیں روپوں سے اس کو خریدا یا بیچا جائے تو جدا ہونے سے پہلے ایک پر قبضہ ہونا ضروری ہے جو رقم اس پر لکھی ہوتی ہے اس سے کم و بیش پر بھی نوٹ کا بیچنا جائز ہے دس کا نوٹ پانچ میں بارہ میں بیع کرنا درست ہے جس طرح ایک روپے سے ٦٤پیسے کی جگہ سو پیسے یا پچاس پیسے بیچے جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں'' بہار شریعت ١١/٢٠٧ بیع صرف کا بیان فاروقیہ بکڈپو۔

۴۔ ایک ملک کے کرنسی نوٹوں کو حوالہ کمپنی کے ذریعہ اجرت پر دوسرے ملک تک اس طرح بھیجنا کہ اس دوسرے ملک کے کرنسی نوٹ ادا کئے جائیں یہ منی آرڈر کی طرح تصحیحا للعقد جائز ہے فتاویٰ رضویہ میں حاجت تصحیح عقد کے متعلق ہے۔ یشیر الی الجواب بان الحاجۃ الی تصحیح العقد تکفی قرینۃ علی ذالک ولا یلزم کون ذالک ناشأا عن نفس ذات العقد کمن باع درھماودینارین بدرھمین و دینار یحمل علی الجواز صرفا للجنس الی خلاف الجنس مع أن نفس ذات العقد لا تابی مقابلۃ الجنس بالجنس واحتمال الربا کتحققہ فما الحامل علیہ الا حاجۃ التصحیح وکم لہ من نظیر''حاشیہ فتاویٰ رضویہ ٧/١٦٠ رضا اکیڈمی ممبئی۔

ہدایہ میں ہے :- ولنا أن المقابلۃ المطلقۃ تحتمل مقابلۃ الفرد بالفرد کما فی مقابلۃ الجنس بالجنس وانہ طریق متعین لتصحیحہ فتحمل علیہ تصحیحا لتصرفہ وفیہ تغییر وصفہ لا اصلہ لانہ یبقی موجبہ الاصلی وھو ثبوت الملک فی الکل بمقابلۃ الکل وصار ھذا کما اذا باع نصف عبد مشترک بینہ و بین غیرہ ینصرف الی نصیبہ تصحیحا لتصرفہ بخلاف ما عد من المسائل۔(ہدایہ اٰخیرین ص ١٠٧ کتاب الصرف)۔

اس کے تحت فتح القدیر میں امام ابن ہمام فرماتے ہیں :- ''ولکن الاصحاب اقتحموہ بناء علی أصل اجماعی وھو أن مھما أمکن تصحیح تصرف المسلم العاقل یرتکب ولہ نظائر کثیرہ''(فتح القدیر ٦/٢٦٩ کتاب الصرف بیروت) (٥) حوالہ کمپنی کے ذریعہ کسی ملک کی کرنسی دوسرے ملک میں اجارہ پر اس طرح بھیجنا کہ اس دوسرے ملک کی کرنسی ادا کی جائے منی آرڈر کی طرح اجارہ ہے جو قرض پر مشتمل ہے۔

۶۔ حکومتوں کے رجسٹرڈ بینک اور صرافہ کے حکومت سے مجاز دفاتر ایک ملک کی کرنسی دوسرے ملک کی کرنسیوں کی شکل میں کسی ملک یا شہر سے دوسرے ملک یا شہر تک اجرت و کمیشن پر پہنچاتے ہیں یہ صورت بھی منی آرڈر کی طرح جائز ہے لان قراطیس النوط مختلفۃ المالیۃ نوع واحد۔یہاں یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ بینک کا ڈرافٹ صرف ایک رسید ہے نہ کہ ثمن یا مبیع اسی لئے ضائع ہونے کی صورت میں دوسرا ڈرافٹ بینک ادا کرنے پر مجبور ہے۔

۷۔ حکومت کی طرف سے غیر منظور شدہ بعض اشخاص اجرت پر کرنسیاں ما بین الممالک منتقل کرتے ہیں ایسے دفاتر و اشخاص بعض اوقات قانونی گرفت میں آ جاتے ہیں اور ان کو دی گئی رقمیں یا تو قُرق ہو جاتی ہیں یا جرمانہ و رشوت میں خرچ ہو جاتی ہیں اور مرسل الیہ یا محال لہ کو نہیں پہنچتی ہیں۔ایسے لوگوں سے اجارہ کے کاروبار میں ضیاع مال و ذلت نفس کا اندیشئہ قوی ہے ایسے لوگوں سے مراسلت رقوم کا اجارہ نہ کیا جائے ۔

سیدنا اعلیٰحضرت امام احمد رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :- الثانیۃ ان من الصور المباحۃ ما یکون جرماً فی القانون ففی اقتحامہ تعریض النفس للاذی والاذلال وھولایجوز فیجب التحرز عن مثلہ وما عدا ذلک مباح سائغ لا حجر فیہ۔(فتاویٰ رضویہ ٧/١١٥)۔
۸۔ بعض صرافے صرف یہ بتاتے ہیں کہ فلاں کرنسی نوٹ کی ہندوستانی کرنسی ہندوستان میں اتنی دی جائے گی وہ مقدار اجرت ظاہر نہیں کرتے حالانکہ عاقدین میں سے ہر ایک کو یہ معلوم ہے کہ قابل ادا کرنسی اجرت وضع کرکے طے ہو رہی ہے اس صورت مسئلہ میں مرسل پر اجرت کی جہالت مفضی الی النزاع نہ ہونے کی وجہ سے یہ عقداجارہ جائز ہے فاسد نہیں واللہ تعالیٰ اعلم۔

(دستخط اراکین فیصل بورڈ)
۱۔ قاضی القضاۃ تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد اختر رضا قادری ازہری مدظلہ العالی
۲۔ محدث کبیر حضرت علامہ مفتی ضیاء المصطفیٰ قادری امجدی دام ظلہ العالی
۳۔ ماہر ہفت لسان حضرت علامہ مفتی محمد عاشق الرحمن حبیبی مدظلہ العالی

فقہی سیمینار مورخہ٢٢، ٢٣/ رجب المرجب ١٤٢٩ھ/٢٦،٢٧/جولائی٢٠٠٨ء بروز ہفتہ، اتوار کی دوسری اور تیسری نشستوں میں کرنسی نوٹوں اور ان کے حوالہ کاروبار سے متعلق بحثوں کا اختتام درج ذیل فیصلوں پر ہوا۔
جواب نمبر ۳
منی و مزدلفہ کی تحدید و توسیع کاشرعی حکم:۔
۱۔ الف:- منی و مزدلفہ و عرفات کے حدود حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے جس طور پر متعین ہیں ادائے مناسک کے لئے انہیں حدود کا اعتبار ہے جو مناسک سنت ہیں وہ سنت اور جو فرض یا واجب ہیں وہ فرض یا واجب۔

ب:- ملک العلماء کاسانی علیہ الرحمہ نے بدائع میں وادیئ محسر کو موقف مزدلفہ میں داخل قرار دیا ہے اور وادئی محسر میں وقوف کو جائز مع الکراہۃ فرمایا ہے ۔

جیسا کہ بدائع میں ہے:- فیکرہ النزول فیہ ولووقف بہ اجزأہ مع الکراھۃ والافضل ان یکون وقوفہ خلف الامام علی الجبل الذی یقف علیہ الامام وھوالجبل الذی یقال لہ ''قزح'' لانہ روی ان رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وقف علیہ وقال ''خذواعنی منا سککم''ولانہ یکون اقرب الی الامام فیکون افضل۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(بدائع ج ٣ ص ٨٩/٨٨)۔

لیکن امام ابن ہمام و علامہ شامی نے وادیئ محسر کو حدود مزدلفہ و منی دونوں سے خارج قرار دیاہے۔

جیسا کہ فتح القدیر میں ہے :- ولیس وادی محسر من منی و لامن المزدلفۃ،فالاستثناء فی قولہ ''ومزدلفۃ کلھا موقف الاوادی محسر''منقطع،واعلم ان ظاھر کلام القدوری والھدایۃ وغیرھما فی قولھم''مزدلفۃ کلھا موقف،الاوادی محسر،وکذاعرفۃ کلھا موقف الابطن عرنۃ ان المکانین لیسا مکان وقوف،فلووقف فیھما لا یجزیہ کما لو وقف فی منیٰ سواء قلنا ان عرنۃ و محسرا من عرفۃ ومزدلفۃ اولا،وھکذا ظاھر الحدیث الذی قدمنا تخریجہ وکذا عبارۃ الاصل من کلام محمد،ووقع فی البدائع! واما مکانہ،یعنی الوقوف بمزدلفۃ فجزء من اجزاء مزدلفۃ،الاانہ لا ینبغی ان ینزل فی وادی محسر،ورویٰ الحدیث ثم قال: ولووقف بہ اجزاہ مع الکراھۃ،وذکرمثل ھذا فی بطن عرنۃ: اعنی قولہ الاانہ لا ینبغی ان یقف فی بطن عرنۃ لانہ علیہ السلام نھی عن ذالک واخبرأنہ وادی الشیطان الخ۔ولم یصرح فیہ بالاجزاء مع الکراھۃ کما صرح بہ فی وادی محسر ولا یخفی ان الکلام فیھما واحد،وما ذکرہ غیر مشھور من کلام الاصحاب،بل الذی یقتضیہ کلامھم عدم الاجزاء ،واما الذی یقتضیہ النظر ان لم یکن اجماع علی عدم اجزاء الوقوف بالمکانین وھوان عرنۃ ووادی محسر ان کان من مسمی عرفۃ والمشعر الحرام یجزی الوقوف بھما،ویکون مکروھا لان القاطع اطلق الوقوف بمسما ھما مطلقا،وخبرالواحد منعہ فی بعضہ فقیدہ،والزیادۃ علیہ بخبر الواحد لا تجوز فیثبت الرکن بالوقوف فی مسماھما مطلقا ،والوجوب فی کونہ فی غیر المکانین المستثنین وان لم یکونا من مسما ھما لا یجزی اصلا وھو ظاہر والاستثناء منقطع۔ (فتح القدیر ج ٢/٤٩٥۔٤٩٦،برکات رضا)۔

اورشامی میں ہے :- (قولہ الاوادی محسر) بضم المیم وفتح الحاء المھملۃ وکسرالسین المھملۃ المشددۃ وبالراء ، والاستثناء منقطع لانہ لیس من منی،کما اشارالیہ الشارح۔ (قولہ لیس من منیٰ) صوابہ لیس من مزدلفۃ لانھا محل الوقوف،(قولہ أو ببطن عرنۃ) ای الذی قرب عرفات، کما مر۔ (قولہ لم یجز) ای لم یصح الاول عن وقوف مزدلفۃ الواجب ولا الثانی عن وقوف عرفات الرکن۔ (قولہ علی المشھور) ای خلافا لما فی البدائع من جوازہ فیھما،فتح۔ (ردالمحتار٢/١٩١مطبع فیض القراٰن)

اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے اسی قول آخر پر حکم صادر فرمایا ،جیسا کہ ''فتاویٰ رضویہ میں ہے :- جب وادی محسر١پہونچے ٥٤٥ہاتھ بہت جلد تیزی کے ساتھ چل کر نکل جاؤ مگر نہ وہ تیزی کہ جس سے کسی کو ایذا ہو۔

اس کے تحت حاشیہ منہیہ میں ہے ۔ یہ منیٰ ،مزدلفہ کے بیچ میں ایک نالہ ہے دونوں کی حدود سے خارج ،مزدلفہ سے منیٰ کو جاتے بائیں ہاتھ کو جو پہاڑ پڑتا ہے اس کی چوٹی سے شروع ہو کر ٥٤٥ہاتھ تک ہے۔ یہاں اصحا ب الفیل آکر ٹھہرے تھے اور ان پر عذاب ابابیل اترا تھا اس سے جلد گزرنا اور عذاب الٰہی سے پناہ مانگنا چاہیئے۔(فتاویٰ رضویہ ٤/٧١٠،رسالہ انوار البشارہ مطبع رضا اکیڈمی ) ۔

سیمینار کے مندوبین بھی اسی پر متفق ہیں۔عذر نا گزیر کی صورت میں قول بدائع پر عمل کر سکتا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
۲۔ جن حجاج کے خیمے حدود منی سے باہر ہیں وہ لوگ حدود منی میں اپنی نمازیں گزارنے اور ذکر کے لئے کچھ وقت صرف کرنے پر قادر ہوں تو ایسا ضرور کریں تاکہ بالکلیہ سنت فوت نہ ہو واللہ تعالیٰ اعلم۔
۳۔ اگر وقوف مزدلفہ خاص انہیں حدود میں کیا جو عہد رسالت میں مزدلفہ تھا تو واجب ادا ہو گیا یہ وقوف طلوع فجر سے طلوع شمس تک اس طرح واجب ہے کہ کسی عذر کی بنا پر ترک ہو جائے تو دم واجب نہ ہوگا۔اعذار کی تفصیل انور البشارہ و بہار شریعت سے معلوم کی جائیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
۴۔ دسویں ذی الحجہ کی رمی جمرہ عقبہ اور گیارہویں بارہویں کی رمی جمرات ثلثہ واجبات حج سے ہے ۔منی کا قیام لیل و نہار ان کی شرط وجوب نہیں ۔البتہ اگر تیرہویں کی شب کے کل یا جز میں منی میں اتنا قیام کیا کہ صبح صادق ہو گئی تو اس دن کی رمی واجب ہے ۔ترک کرے گا تو دم واجب ہوگا۔
تیرہویں کی رمی کا وقت صبح صادق سے غروب آفتاب تک ہے مگر زوال شمس سے قبل مکروہ ہے واللہ تعالیٰ اعلم۔

شرعی کونسل آف انڈیا بریلی شریف کے پانچویں منعقدہ فقہی سیمینار٢٢،٢٣/ رجب المرجب ١٤٢٩ھ/٢٦،٢٧/جولائی٢٠٠٨ء بروز ہفتہ، اتوار
|  HOME  |